بلاگزعوام کی آواز

کسی کو قتل کرنا ہم اپنا حق کیوں سمجھتے ہیں؟

رعناز

ثنا کا قتل، تیزاب گردی، اور ایک سوال جو ہمیں اندر سے جھنجھوڑ دیتا ہے۔

ہمارا معاشرہ ایک ایسی  مقام پر آ چکا ہے، جہاں کسی کو مار دینا معمول بن چکا ہے۔ ہم روز خبریں پڑھتے ہیں، ویڈیوز دیکھتے ہیں، پوسٹس شیئر کرتے ہیں، لیکن دل پر چوٹ نہیں لگتی۔

کبھی کسی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا جاتا ہے، کبھی تیزاب سے چہرہ جلا دیا جاتا ہے۔ اور وجہ؟

"اس نے میری بات نہیں مانی۔”

"اس نے میرا رشتہ ٹھکرا دیا۔”

"اس نے کسی اور سے بات کی۔”

یعنی اب انسان کا قتل صرف ایک "رد” کا بدلہ بن چکا ہے؟ واہ کیا  انصاف ہے ہمارا۔

ثنا، ایک ٹک ٹاکر تھی، جو سوشل میڈیا پر اپنی پہچان بنا رہی تھی۔ شاید وہ اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی، شاید وہ اپنے لیے ایک آزاد زندگی چاہتی تھی۔ لیکن کسی نے اپنی جھوٹی انا، اپنی خالی غیرت، اور اپنی بیمار سوچ کے تحت اس کی جان لے لی۔ یہ قتل صرف ایک فرد کا قتل نہیں یہ ایک سوچ کا قتل ہے، ایک خواب کا قتل ہے، ایک بیٹی کا قتل ہے۔ اور ایک معصوم جان کا قتل ہے۔

یہ صرف ثنا کا قصہ نہیں ہے یہ ہر دوسری لڑکی کا قصہ ہے، کھبی فائرنگ کر کے جان  لی جاتی ہے، تو کھبی تیزاب پھینک کر، یہ تیزاب صرف چہرہ نہیں جلاتا، وہ انسان کی شناخت مٹا دیتا ہے، اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایسا اکثر ان لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے "نہیں” کہا ہوتا ہے۔

آخر یہ کیوں؟ کیونکہ ہم نے اپنی سوچ میں عورت کو اختیار دینے کی اجازت ہی نہیں دی۔ ہم نے یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ کسی کو انکار کرنے کا حق ہے اور اگر کوئی یہ حق استعمال کر بیٹھے، تو ہم اس کی شکل بگاڑ دیتے ہیں، یا اس کی سانسیں چھین لیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ انسان تو مر جاتا ہے لیکن اس کے گھر والے  کس درد سے گزریں گے۔ پتہ نہیں ہمیں کب عقل آئیں گی۔

مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا جان لینا اتنا آسان ہو گیا ہے؟ کیا ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ اب صرف انا، ضد یا غیرت کے نام پر انسان قتل ہو جائیں گے؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہر جان قیمتی ہے، ہر زندگی کا ایک مقصد ہے، اور ہمیں کسی کی زندگی ختم کرنے کا نہ اختیار ہے، نہ حق؟

بہت سارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ  جب کسی کو مارا جاتا ہے تو اس وقت قانون کہا ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ معاشرہ صرف قانون سے نہیں، ضمیر سے  بھی بچ سکتا ہے۔

یہاں ہمیں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانون جرم کے بعد حرکت میں آتا ہے۔ لیکن ضمیر جرم سے پہلے جگایا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو عزت، برداشت، اور محبت کا مطلب سکھائیں، اگر ہم اپنی بیٹیوں کو اعتماد اور اپنے بیٹوں کو شعور دیں، تو شاید یہ قتل، یہ تیزاب گردی، اور یہ گولیاں رک جائیں۔

ادھر میں ایک اور بات بھی واضح کرنا چاہونگی کہ خاموشی بھی جرم ہے۔ اگر ہم ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، تو ہم اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر ہم ظالم کے بجائے متاثرہ کو الزام دیتے ہیں، تو ہم ظالم کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ اور اگر ہم صرف سوشل میڈیا پر کمنٹ کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں، تو ہم بے حسی کی انتہا کو چھو چکے ہیں۔

ثنا جیسے ہزاروں خواب ہمیں روز پکار رہے ہیں۔ کبھی وہ تیزاب کی تکلیف میں بلکتے ہیں، کبھی وہ گولیوں کی آواز میں دفن ہو جاتے ہیں۔چلیکن اگر ہم جاگ جائیں ،واقعی جاگ جائیں ،تو ہم یہ سب بدل سکتے ہیں۔

اس بلاگ کے آخر میں یہ نہیں کہونگی کہ یہ آخر ہے۔ یہ بلاگ ایک خاتمہ نہیں، ایک آغاز ہے۔ سوچ کا، بیداری کا، تبدیلی کا۔ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں۔

ظلم کے ساتھ؟ یا انسانیت کے ساتھ؟ ہمیں انسانیت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے نہ کہ ہم کہیں کہ ثنا یا ثنا کی طرح اور لڑکیوں کے ساتھ بہت اچھا ہوا۔ ہمیں ہر کسی  کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیئے نہ کہ یہ کہ کسی کو قتل کرنا ہم اپنا حق سمجھے۔

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button