دین پر سمجھوتہ یا اللہ کی رضا؟ ایمان والوں کے لیے بیداری کا لمحہ

حمیرا علیم
عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے جتنا چاہتا ہے دیتا ہے۔ لیکن انسان ذرا سی آزمائش پر اس حقیقت کو بھلا کر غیر اللہ کی طرف بھاگتا ہے۔ مگر چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں خواہ دنیاوی لحاظ سے مال و اسباب نہ بھی ہوں مگر اللہ ان کے لیے رستے کھول دیتا ہے۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دنیا، حکمرانوں یا باطل نظاموں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ عارضی طور پر مقبولیت یا مفاد حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر آخرت میں خسارے میں رہیں گے۔ ایک توحید پرست مومن اور مفاد پرست مصلحت پسند کے درمیان یہی فرق ہے۔
پچھلے دنوں سعودی فرمانروا اور چند نام نہاد دانشوروں نے غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لیے سعودی فتوی کمیٹی کے مفتیان سے عجیب و غریب فرمائش کی کہ وہ یہ فتوی دیں کہ قرآن، تورات اور بائبل کو ایک ہی جلد میں لکھا جائے اور ایک ہی جگہ مندر، مسجد، چرچ اور سینا گوگ بنا کر ابراہیم ہاؤس بنایا جائے اور مذہبی اتحاد کا ثبوت دیا جائے۔
سعودی عرب کی مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق و افتاء نے فتویٰ نمبر 19402 میں مذاہب کے باطل اتحادکی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ دعوت، دینِ اسلام کی بنیادوں کو ہلانے، یہودیت، عیسائیت اور دیگر مذاہب کو اسلام کے برابر کھڑا کرنے کی سازش ہے۔ اور اگر کوئی مسلمان اس فتنے کی حمایت کرے تو وہ مرتد یعنی دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
یہ فتویٰ اُس وقت سامنے آیا جب بعض عرب ریاستوں میں "ابراہیمی ہاؤس” جیسے منصوبوں کو فروغ دیا جا رہا تھا۔
جس میں مسجد، چرچ اور مندر کو ایک ہی کمپاؤنڈ میں تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن، تورات اور انجیل کو ایک ہی جلد میں شائع کرنے کی تجویز بھی دی جا رہی تھی، جسے "بین المذاہب ہم آہنگی” کا نام دیا گیا۔
مگر فتویٰ میں صاف الفاظ میں کہا گیا کہ:” اسلام کے سوا کوئی دین اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ قرآن، آخری اور مکمل کتاب ہے، اور سابقہ کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ محمد ﷺ آخری نبی ہیں۔ مسجد، چرچ اور مندر کو ایک جگہ بنانا ناجائز ہے کیونکہ یہ اسلام کی برتری کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔
اس دعوت کا ایک اثر یہ ہوگا کہ اسلام اور کفر کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا اور مسلمانوں کا کفار کے ساتھ بیزاری کا رویہ ختم ہو جائے گا، جس سے جہاد اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی جدوجہد بھی ختم ہو جائے گی۔جو اسلام نہ لائے وہ کافر ہے اور اللہ کا دشمن ہے۔ ایسے افراد جو بین المذاہب اتحاد کو فروغ دیں، اس بارے میں سیمینارز میں شرکت کریں وہ مرتد ہیں۔”
یہ اعلان حقیقت میں حق اور باطل کے درمیان ایک واضح لکیر اور امت مسلمہ کے لیے بیداری کا ایک پیغام ہے ۔کہ ایمان، اخلاص اور اسلامی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں۔
ایمان قصے کہانیوں سے مشروط نہیں بلکہ اس کے لیے عملی ثبوت دینا پڑتا ہے۔ ایسا ہی ایک ایمان افروز واقعہ لیبیا کےالمہدی نامی شخص کے ساتھ پیش آیا۔ وہ حج کے لیے ایئرپورٹ پہنچے حکام نے عامر المہدی کو پاسپورٹ کے ایک مسئلے کی بنیاد پر طیارے میں سوار ہونے سے روک دیا۔ فلائٹ کے وقت حجاز جانے والے مسافروں کے نام پکارے گئے۔ مگر انہیں اندر جانے نہیں دیا گیا۔ پھر طیارہ اپنے مقررہ وقت پر اڑان بھر کر روانہ ہو گیا، لیکن المہدی نہ مایوس ہوئے، نہ ایئر پورٹ سے باہرنکلے۔ وہ پوری استقامت اور یقین سے کہتے رہے: میں نے نیت کر لی ہے میں حج کے لیے جا رہا ہوں اور میں جاؤں گا!”
ادھر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ طیارہ آسمان میں پہنچ کر اچانک فنی خرابی کا شکار ہو گیا اور واپس ایئر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔ یہ موقع المہدی کے لیے ایک نئی امید کی کرن بن سکتا تھا۔ مگر جب طیارہ واپس آیا اور المہدی کو سوار کرنے کی اجازت طلب کی گئی تو پائلٹ نے سیڑھی کھولنے سے انکار کر دیا۔ طیارے کی فنی خرابی دور کر دی گئی اور وہ ایک بار پھر اڑان بھر کر فضا میں بلند گیامگر المہدی کو پیچھے چھوڑ کر۔
مگر وہ مردِ مومن نہ تو مایوس ہوا نہ ہی گھر لوٹا۔ حکام نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اب کوئی امید باقی نہیں لیکن ان کا جواب ایمان سے لبریز تھا-
اور پھر حیرت انگیز طور پر، وہی ہوا! طیارہ ایک اور فنی خرابی کا شکار ہوا اور مجبوراً اسے دوبارہ ایئرپورٹ لوٹنا پڑا۔ اب کی بار پائلٹ نے اعلان کیا: "جب تک عامر المہدی سوار نہیں ہوگا میں جہاز نہیں اڑاؤں گا۔”
چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ لمحہ جب المہدی بالآخر طیارے پر سوار ہوئے اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ یہ صرف اتفاق نہیں تھا۔ یہ اس آیت کی عملی تفسیر تھا۔
"اور جو اللہ پر بھروسا کرے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔” الطلاق 3
جہاں دنیا والے سفارش، ویزہ آفس، اور پیسے کی بنیاد پر سفر کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہاں المہدی نے صرف اللہ کی رضا کی خاطر قدم اٹھایا اسی پر بھروسہ کیا اور اللہ نے آسمان سے اسباب کو زمین پر بھیج دیا۔
ان دو واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو اللہ کی رضا چاہے اللہ بھی اس کے لیے دروازے کھول دیتا ہے اور جو دنیا کے پیچھے دوڑے وہ دنیا و آخرت میں رسوا ہوتا ہے۔
جو مسلم حکمران یا نام نہاد دانشور اکبر بادشاہ کے دین اکبری کی طرح بین المذاہب اتحاد کے نام پر لادینیت پھیلانا چاہتے ہیں، وہ کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ہر مسلمان سے اسلام پر مرنے، اسے افضل ترین و آخری مذہب ماننے اور صرف اللہ سے رجوع کرنے کا تقاضہ ہے۔
ہمیں آج صرف سیاسی اور معاشی محاذوں پر ہی جنگ نہیں لڑنی پڑ رہی بلکہ ایمانی آزمائش کا بھی سامنا ہے۔ اگر کوئی اسلام کو تحریف شدہ مذاہب کے برابر سمجھتا ہے تو وہ ابلیس کی طرح اللہ رسول سے کھلم کھلا جنگ کا اعلان کرتا ہے۔ المہدی جیسے لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ایمان والے ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں، مگر وہی اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔
اورسعودی علماء کے فتوے جیسے جرات مند اعلانات ہمیں وہ شعور دیتے ہیں جو امت کی اصل پہچان کو باقی رکھ سکتے ہیں۔ اگر آج ہم نے یہ فرق نہ پہچانا کہ اللہ کی رضا کیا ہے اور باطل کی خوشنودی کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہماری مساجد کے ساتھ ساتھ ہمارے دل بھی غیر اللہ کی عبادت گاہیں بن جائیں گے۔
ایمان والوں کو اپنے رب سے امید رکھنی ہے نہ کہ لوگوں سے۔صرف اللہ ہی مالک کل کائنات اور نفع نقصان کا مالک ہے۔ کامیاب وہی ہے جو اللہ کو راضی کرے اور ناکام وہ ہےجو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے دروازوں پر سر جھکائے۔ اس آیت کو ہر حال میں یاد رکھیے۔تاکہ المہدی کی طرح اسباب غیبی ملیں۔
"أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ؟”
"کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟”
سورۃ الزمر: 36