کیا 14 سال کی عمر میں نکاح ممکن ہے؟ قرآن، حدیث اور تاریخ کا جائزہ

حمیرا علیم
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں نکاح کی عمر بلوغت بتائی ہے۔ بلوغت کی عمر مختلف علاقوں میں ماحول اور موسم کے اعتبار سے 9 سے 13 سال تک ہو سکتی ہے۔ یعنی لڑکا یا لڑکی جب بالغ ہو جائیں، ان کا نکاح شرعاً جائز ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن پاک، حدیث اور اسلامی تاریخ پڑھی جائے تو بلوغت کے بعد جو کام ہمیں ان تینوں میں ملتے ہیں وہ نکاح سے کہیں پہلے روزگار کمانا، جائیداد میں حصہ دے کر کمائی کرنا، جہاد کرنا جس میں جہاد بالقلم، بالزبان، بالنفس، بالسیف شامل ہیں، غربا، مساکین، بیوہ یتیم اور مستحقین کی مدد کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے مومن بننا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری کرنا، فرائض اور حقوق کا علم حاصل کرنا اور ان کی ادائیگی کرنا المختصر قرآن حدیث کا علم حاصل کر کے ان پر عمل کرنا ہے۔
اگر دور نبوی، دور صحابہ کرام، دور تبع تابعین؛ صحابہ کرام کے بعد کے لوگ، اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بلوغت کے بعد مرد کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہو جاتے تھے، چند خواتین بھی تجارت کرتی نظر آتی ہیں۔ جو تجارت نہیں کرتیں، وہ گھر کے کاموں میں مصروف ہوتیں تھیں یا ٹیچنگ، طب، دیگر شعبوں سے وابستہ ہو جاتی تھیں۔ اور دونوں اصناف علم القرآن، حدیث اور فقہ حاصل کرتے تھے۔ یوں وہ دنیاوی لحاظ سے اس قابل ہوتے تھے کہ نکاح کر کے گھر سنبھال سکیں۔
آج بھی اگر مغرب کو دیکھیں تو ان کے بچے 14 سال کی عمر سے سکول میں ہی مختلف ہنر سیکھتے ہیں۔ او لیول میں انہیں سماجی خدمت، انٹرن شپ کے ذریعے جاب کرنا سکھایا جاتا ہے۔ او لیول کے بعد چھٹیوں میں تین دن سے ایک ہفتے کے شارٹ کورسز کے ذریعے مختلف زبانیں اور ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ 18 سال کی عمر میں مرد و عورت دونوں پر فرض ہے کہ جاب کرے اور اپنا خرچہ خود اٹھائے۔ بعض صورتوں میں تو وہ والدین کا گھر چھوڑ کر اپنی رہائش بھی الگ کر لیتے ہیں۔ خواہ کسی ایک کمرے کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میں دو لوگ رہیں، کسی ہاسٹل میں رہیں یا جاب کے مطابق پورا فلیٹ یا گھر لے کر رہیں۔ والدین بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ بچے 18 سال کے ہو کر بھی ان پر بوجھ بنے رہیں۔ بہت کم بچے 18 سال کی عمر کے بعد بھی والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور جو رہتے ہیں وہ گھر کے اخراجات، بلز میں اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی کچھ برادریوں جیسے کہ میمن، پٹھان، شیخ، مہاجر، بلوچ، قادیانی، ہندو وغیرہ میں یہی طریقہ ہے کہ پانچویں جماعت سے ہی بچے سکول سے آکر بزنس پر والد کا ہاتھ بٹھاتے ہیں، اگر بزنس نہ ہو تو کسی کام کے سیکھنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ چند سالوں میں بچے اس ہنر یا بزنس میں طاق ہو جاتے ہیں اور اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔ یوں وہ گھر کی ذمہ داری اٹھانے لائق ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان برادریوں میں شادیاں جلد کرنے کا رواج ہے۔ والدین ابھی جوان ہی ہوتے ہیں کہ اولاد کام کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
یعنی دور نبوی سے لے کر آج تک بلوغت کے بعد کوئی جاب، بزنس کرنا ممکن ہے اور شادی کر کے تمام ذمہ داریاں اٹھانا بھی۔ جو رواج آج ہمارے گھروں میں رائج ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی، دو بچے ہوں یا بارہ، سب ماسٹرز، پی ایچ ڈی کر کے شادی کر کے بھی والدین پر ڈیپینڈنٹ رہتے ہیں۔ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں تک گرینڈ پیرنٹس سے چپکے ان کی ذمہ داری بنے رہتے ہیں، اس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ دور نبوی میں 9 سے 14 سال کے بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ آج بھی کئی برادریاں خصوصاً پٹھان، گیارہ سے پندرہ سالہ بچے بچیاں بیاہ دیتے ہیں اور ان کی شادیاں کامیاب بھی رہتی ہیں۔ دوسرا اچھا رواج جو بلوچ، پٹھان کے ہاں رائج ہے وہ بھی عین سنت کے مطابق ہے کہ وہ لڑکی والوں سے ایک تنکا تک نہیں لیتے، بلکہ یہ لڑکے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بحیثیت استطاعت ایک کمرہ، کچن، باتھ روم یا پورا گھر کرائے پر لے یا بنائے، اسے فرنش کرے، شادی کا سارا خرچہ اٹھائے۔ اس رواج سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرد کام کرتا ہے، بیوی بچوں کی کفالت اور گھر کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہے۔
اگر تو مرد کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہے تو خود ہی رشتہ لے جا کر شادی بھی کر سکتا ہے کیونکہ قرآن، حدیث میں کہیں بھی مرد کے ولی کی اجازت کا ذکر نہیں۔ اور کفالت کی ذمہ داری مرد پر اللہ تعالیٰ نے عائد کی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا عورت نے نہیں۔ ہاں، عورت کے ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں آج کل جو ٹرینڈ چلا ہے کہ جو والدین اس لئے بچوں کی شادی نہیں کرتے کہ بچے ڈگری حاصل کر لیں، کام کرنے کے قابل ہو جائیں، برادری میں ہی رشتہ مل جائے وغیرہ، ان کی اولاد اگر شادی نہ ہونے کی بناء پر زنا کرے تو گناہ والدین کو ہو گا۔ ایسا کچھ نہ تو قرآن حدیث میں لکھا ہے، نہ ہی کسی دنیاوی قانون میں۔
والدین کا کام بلوغت سے پہلے تعلیم و تربیت کرنا، اخراجات مہیا کرنا ہے۔ بلوغت کے بعد ہر شخص اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہے۔ اور قرآن حدیث نے شادی نہ ہونے، فتنے، گناہ سے بچنے کا بڑا ہی آسان فارمولا بتا دیا ہے: مرد ہو یا عورت نگاہ نیچی رکھے، عورت پردہ کرے، عورت اور مرد کا کسی بھی قسم کا اختلاط، میل جول نہ ہو ماسوائے ضروری کام کے، اگر کوئی چیز نامحرم سے لینی ہی ہو تو پردے کے پیچھے سے لی جائے، عورت نامحرم سے بات کرے تو سخت لہجے میں کرے، شادی نہ ہو رہی ہو تو بکثرت روزے رکھیں کہ یہ نفس پر کنٹرول رکھتے ہیں۔
کیا آج کے نوجوان یہی سب کچھ کر رہے ہیں؟ یا ایڈلٹ اسٹف دیکھنے، پڑھنے، ویسا ہی کام کرنے میں مشغول ہیں؟ پیئر پریشر کے تحت اللہ کے خوف سے بے نیاز نامحرم سے تعلق رکھنے کا جائز اور حلال تصور کر کے گناہ میں مبتلا ہیں؟ بائی دا وے جب آپ زنا کر رہے ہوتے ہیں، کیا والدین کی اجازت سے کر رہے ہوتے ہیں؟ تو نکاح کر لیں، والدین کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ واقعی گناہ سے بچنا چاہتے ہیں تو خود سے نکاح کر لیں اور مل جل کر گھر بنا چلا لیں۔ والدین کو الزام دے کر آپ اپنے دل کو تسلی دے رہے ہیں یا اللہ کو دھوکہ؟
امام اسماعیل بخاری چودہ سال کی عمر میں حدیث کے عالم بن چکے تھے، آج بھی دنیا بھر میں 11 سالہ بچے بھی بڑے بڑے علوم کے ماہر ہیں۔ چند ایک تو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں جیسے کہ ارفع کریم، زیدان حامد، صافی وغیرہ۔ مانا کہ ہر بچہ عالم نہیں بن سکتا، لیکن فقیر اور چائلڈ لیبر میں کام کرنے والے بچے اس بات کا ثبوت ہیں کہ آج بھی بچے پورے خاندان کے کفیل بن سکتے ہیں۔
کفالت کے لیے ڈگری، اعلیٰ عہدہ، سرکاری جاب ہی معیار ہوتی تو برگر، سبزیاں، فروٹ، چپس، بھٹہ بیچنے والوں، رکشہ، لوڈر چلانے والوں کے گھر والے بھوکے مرتے۔ اگر صاحب حیثیت والدین قرآن کے مطابق بچوں کو جائیداد میں سے حصہ دے دیں، جیسے کہ چنیوٹی شیخ کرتے ہیں، غریب بچوں کو کوئی ہنر سکھا کر کام پر لگا دیں تو وہ خود شادی کر سکتے ہیں، والدین کے محتاج نہ رہیں، بلکہ خود شادی کر سکتے ہیں۔
موسیٰ اور شعیب علیہ السلام کا قصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لڑکی خود پرپوز کر سکتی ہے۔ لڑکی کے والد شادی کی شرائط میں گھر داماد رکھنے کی شرط عائد کر سکتے ہیں، داماد سے اپنے کام میں مدد لے سکتے ہیں۔ لڑکے کے گھر والوں کی اجازت یا شرکت لازمی نہیں کیونکہ وہ بالغ اور کام کے قابل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے کپڑوں پر ورس کا نشان دیکھ کر پوچھا: "کیا نکاح کر لیا ہے؟” ان کے اثبات میں جواب دینے پر مبارکباد دی، یہ گلہ نہیں فرمایا کہ "مجھے انوائٹ نہیں کیا”۔
بارات کے ڈیڑھ دو سو بندے کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ بارات کے پیسے بچا کر گھر کی چیزیں خرید لیں۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مثال بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بیوہ، بڑی عمر کی خاتون شادی کا پروپوزل بھیج سکتی ہے، شوہر کو اپنے گھر میں رکھ سکتی ہے، اپنے کاروبار کو خود چلا سکتی ہے، شوہر کو بطور ایمپلائی ہائر کر سکتی ہے۔ زینب رضی اللہ عنہا کی مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیوی امیر ہو تو شوہر کو اس کے پیسے، جائیداد پر کوئی حق حاصل نہیں، الا یہ کہ بیوی اسے اپنی مرضی سے کچھ دے۔ یہ زکوٰۃ ہو یا ماہانہ خرچ یا کاروبار کے لیے مدد یا قرضہ۔
صحابہ کرام کی ہزاروں مثالیں ہیں جہاں دوسرے مسلمان بھائیوں نے ان کی کام میں مدد کی۔ لوہے کی انگوٹھی بیچ کر ایک کلہاڑی اور رسی سے انہوں نے لکڑیاں کاٹنے کا کام شروع کیا اور شادی کے بعد کفالت کی۔ بزنس کرنے والے صحابہ کرام نے زکوٰۃ، صدقات کے ذریعے دوسرے مسلمانوں کو رزق کمانے کے قابل بننے میں مدد دی، نہ کہ صرف دسترخوان لگا کر انہیں فقیر بنایا۔ مزدوری تو آج بھی کی جا سکتی ہے، سرمایہ اکٹھا کر کے کوئی چھوڑا موٹا کام آج بھی کیا جا سکتا ہے، فیکٹری، ہوٹل، کسی بھی دکان ہر کام تو آج بھی کیا ہی جا سکتا ہے۔
یاد رکھیے! شادی صرف جسمانی تسکین کا نام نہیں کہ آج کے نوجوان نکاح نہ ہونے پر گناہ کو جائز سمجھ لیتے ہیں اور اس گناہ کا ذمہ والدین کے سر ڈال دیتے ہیں۔ شادی گھر کے سکون، زوج کے ساتھ زندگی گزارنے، نسل انسانی کی بقا اور معاشرے میں انتشار نہ پھیلنے، فساد سے بچنے کا نام ہے۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ فرض کیجئے والدین ایک ایسے چودہ سالہ بچے کی شادی کر دیتے ہیں جو کمانے لائق نہیں، چند دن تو شادی کا خمار رہے گا، پھر جب بیوی آپ سے ماہانہ خرچہ، کھانے پینے، کپڑے جوتے، بلز، بچوں کی ضروریات کے لئے پیسے مانگے گی تو کیا آپ والدین کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے؟
قرآن، حدیث میں کہیں نہیں لکھا کہ والدین آپ کے بیوی بچوں کی کفالت کے ذمہ دار ہیں۔ سال بعد کفالت نہ کر سکنے کی وجہ سے آپ میں جھگڑے شروع ہو جائیں گے اور چند سال بعد طلاق۔ تو ایسی شادیوں کو کیا فائدہ جو معاشرے میں سکون کی بجائے بگاڑ پیدا کریں؟ کیوں نہ بندہ قرآنی نسخے پر عمل کرے اور کفالت کے قابل ہونے تک اپنے آپ پر قابو رکھے؟
دوسرا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ والدین لڑکی کے لئے امیر لڑکا چاہتے ہیں اور لڑکے والے جہیز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، اس لیے نکاح مشکل ہو گیا ہے، تو بھئی! یہ قرآن، حدیث کا عائد کردہ فریضہ تو نہیں، آپ لوگوں نے ہی یہ فرض بنا رکھے ہیں۔ کیجئے نہ اسلامی طرز کا نکاح جس میں لڑکا اسٹوڈیو اپارٹمنٹ مہیا کرے اور لڑکی، لڑکے والے بچوں کے دین کو ترجیح دیں۔ ایک دوسرے کی مالی حیثیت دیکھ کر جوڑے بنائیں تاکہ ازدواج میں ذہنی ہم آہنگی رہے۔ لڑکیاں عائشہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہما کی طرح شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق گزارہ کریں اور شوہر کسی چھوٹے کام کو برا نہ جانیں۔
معاشرے میں سکون کے لیے قرآن، حدیث کو پڑھنا، ان کو سمجھنا، ان پر عمل کرنا واحد حل ہے، نہ کہ اپنے گناہ کا الزام دوسروں کو دینا۔
سورہ الجاثیہ 15
"جو کوئی نیک کام کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے، اور جو کوئی برائی کرتا ہے تو اپنے سر پر وبال لیتا ہے، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔”
سورہ النحل 111
"جس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ اپنی طرف سے جھگڑ رہا ہوگا، اور ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کیا، اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔”