بلاگزعوام کی آواز

دین اسلام کیا صرف کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے؟

کلثوم محسود

آج جس موضوع پر قلم اٹھا رہی ہوں، وہ شاید بظاہر ایک معمولی بات لگے، لیکن درحقیقت یہ ایک ایسی سچائی کا پردہ چاک کرنے جا رہا ہے جسے ہم میں سے اکثر نے کبھی جاننے یا ماننے کی کوشش نہیں کی۔ میری گزارش ہے کہ یہ تحریر نہ صرف انصاف کی آنکھ سے پڑھی جائے بلکہ جہاں کہیں بھی ایسے کردار موجود ہوں جو دین کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی پاکیزگی کو داغدار کر رہے ہوں، اُن کے خلاف آواز بلند کی جائے۔

یقیناً ایک قاری، حافظ، یا عالم کا درجہ اسلام میں بلند و بالا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہی مقام اب کئی نام نہاد افراد کی تجوریاں بھرنے اور جائیدادیں بنانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ مسجد کی تزئین و آرائش اس لیے کی جاتی ہے تاکہ کوئی بیرونی عالم آئے تو واہ واہ کرے، نہ کہ یہ سوچ کر کہ یہاں آنے والا ہر نمازی سکون اور اخلاص پائے۔ اور جب کوئی ان کے کردار پر سوال اٹھائے، تو فوراً یہ نعرہ سننے کو ملتا ہے: "ہم آخرت بگاڑنا نہیں چاہتے”۔ گویا سوال کرنا ایمان کے خلاف ہو گیا۔

عرض ہے کہ میری بات کو تمام قاریوں پر لاگو نہ سمجھا جائے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ چند ایسے افراد ضرور ہیں جو اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور کوئی ان کا محاسبہ کرنے والا نہیں۔ اسی تناظر میں ذکر ہے ایک محلے کی مسجد "سیدنا علی المرتضیٰ” کا، جہاں کے قاری صاحب نے نہ صرف ایک عظیم مدرسہ (آسیہ للبنات) اپنی بیوی کے نام کر رکھا ہے بلکہ کچھ ہی فاصلے پر بیٹے کے نام ایک اور مسجد کی بنیاد بھی رکھ دی ہے۔ مال و زر میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔

اگر قاری صاحب واقعی اپنے نام کی طرح احسان کا جذبہ رکھتے، تو ہمیں شکایت کا موقع نہ ملتا۔ لیکن سنیے کچھ وہ سچائیاں، جو ہوش اڑا دینے والی ہیں۔ قاری صاحب کے والد کی وفات کے بعد ایک صاحب حیثیت فرد نے انہیں پلاٹ اور گھر عطیہ کیا۔ مگر رفتہ رفتہ شکایات آنے لگیں کہ قاری صاحب دورانِ تعلیم بچوں کو زبردستی گود میں بٹھاتے، اور انکار کرنے پر تشدد کرتے۔ والدین نے ان باتوں کو بچوں کی شرارت یا قاری صاحب کی سختی سمجھ کر ٹال دیا، اور بدقسمتی سے ہماری سادہ لوحی نے اسے دین داری کا حصہ مان لیا۔

یہی وجہ ہے کہ آئے روز ہم خبریں سنتے ہیں کہ کسی مسجد یا مدرسے میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ کیا وجہ ہے کہ ایک قاری جو اللہ کے گھر میں اللہ کی کتاب پڑھاتا ہے، وہ بھی شیطان کی راہ پر چل پڑتا ہے؟ کیا اسلام نے ایسی تعلیمات دی ہیں؟ ہرگز نہیں۔

مذکورہ قاری نہ صرف اہل محلہ سے چندہ مانگتے ہیں بلکہ اسے گویا بھتہ وصولی کی طرح لیتے ہیں۔ کبھی عاجزی دکھا کر، کبھی مدرسے کی ضرورت کے نام پر لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔ قاری صاحب خود اپنے طلباء سے جسمانی مالش کراتے ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ دورانِ تعلیم بچوں کو گالیاں دینا معمول بن چکا ہے۔

اسی علاقے کی ایک بزرگ خاتون کی داستان بھی دردناک ہے۔ انہوں نے شوہر کی خواہش پر مسجد کے قریب گھر خریدا، لیکن روزانہ ان کے چپل چوری ہوتے۔ جب تحقیق کی گئی تو انکشاف ہوا کہ قاری صاحب کے شاگرد بچوں کے چپل بوری میں بھر کر کباڑیے کو بیچتے ہیں۔

اس سب پر مستزاد یہ کہ رہائشی طالبعلموں کی طرف سے قوم لوط جیسے اعمال کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔ اللہ کے گھر میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم موسمیاتی شدت، آفات اور روحانی بے سکونی کا شکار ہیں۔

ایسے مدارس سے نکلنے والے طلباء الف، ب، ت، تو سیکھ جاتے ہیں، مگر اخلاقیات سے ناواقف رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز بدفعلی کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ جو مدارس واقعی اسلام اور اخلاقیات کی خدمت کر رہے ہیں، جیسے "جامعہ حفصہ”، انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یہ نام نہاد مدارس ترقی پر ترقی کر رہے ہیں۔

ہم اپنی زکات و صدقات دیتے وقت صرف یہ دیکھتے ہیں کہ "مدرسہ ہے، مسجد ہے، ثواب ملے گا”۔ مگر جس عمارت میں یہ قبیح حرکات ہو رہی ہوں، وہ اللہ کے گھر کہلانے کے قابل نہیں۔ جب ہم اندھا دھند عطیات دیتے ہیں اور تحقیق نہیں کرتے، تو ہم بھی برابر کے مجرم بن جاتے ہیں۔

اس لیے درخواست ہے کہ جب بھی کسی مدرسے یا مسجد کو مالی مدد دیں، اُس کے منتظمین کی مکمل چھان بین کریں۔ اسلام کا حسن کردار و عمل میں ہے، نہ کہ داڑھی اور جبے میں۔ اللہ ہمیں وہ مسلمان بنائے جن کا تعلق دل سے ہو، نہ کہ ظاہری تراش خراش سے۔ اگر صرف نسب اور لباس ہی نجات کا معیار ہوتا، تو نوح علیہ السلام کا بیٹا اور لوط علیہ السلام کی بیوی غرق نہ ہوتے۔

یہ تحریر ان آوازوں کے لیے ہے جو اسلام کی آڑ میں ظلم کا بازار گرم کئے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم خاموش رہے، تو پھر بولے گا کون؟

 

Show More
Back to top button