تعلیم یافتہ خواتین: معاشرے کا فخر یا مردوں کا خوف؟

ایزل خان
گزشتہ زمانے کے مقابلے میں موجودہ معاشرتی دور بہت بدل چکا ہے۔ پہلے وقتوں میں کئی والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، لیکن اب صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ اب والدین اپنی بیٹیوں کو بھی تعلیم دلوا رہے ہیں، نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں جیسے کہ تدریس، طب، اور سوشل میڈیا سمیت دیگر میدانوں میں بھی۔ تاہم، موجودہ دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کو منفی تصور کرتے ہیں۔ وہ اب بھی اس خیال کے حامل ہیں کہ خواتین کا فرض صرف شادی کرنا، بچوں کی پرورش، کھانا پکانا اور گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا ہے۔
اگر آپ ایسے لوگوں سے ان کے خیالات کے بارے میں پوچھیں، وجہ جاننے کی کوشش کریں تو اکثر وہ یہی کہتے ہیں کہ معاشرتی ماحول مناسب نہیں ہے۔ کچھ والدین کی راۓ یہ ہوتی ہے کہ پڑھی لکھی لڑکیاں بےحیا یا باتونی ہوتی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اچھے ماحول کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے؟ یا پھر مردوں کے دل میں یہ خاموش خدشہ موجود ہے کہ پڑھی لکھی عورتیں اپنے حقوق اور خودمختاری کے بارے میں آواز بلند کریں گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہمیں معاشرت میں تبدیلی اور ترقی کی طرف مائل کرتے ہیں۔
بعض مردوں کے دل میں یہ خوف ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دینے سے وہ خود مختار ہو جائیں گی اور اپنے حقوق کے بارے میں آواز اٹھائیں گی، جو ان کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔ یہ خوف اس بات سے بھی منسلک ہوتا ہے کہ خواتین تعلیم یافتہ ہو کر زیادہ باشعور ہو جائیں گے، جس سے ان کی روایتی ذمہ داریوں اور حقوق کی پہچان میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم مردوں کی زندگی کو بہتر بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنے گھر کی اخلاقیات کو بلند کر سکتی ہے بلکہ وہ اپنے بچوں کو بھی بہتر تربیت فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
نظام تعلیم میں عدم استحکام کا مسئلہ واقعی موجود ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ بلکہ، یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی گھر کی لڑکیوں کی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کوششوں میں شریک ہوں تاکہ معاشرہ واقعی ترقی کرے۔ ہمیں اپنے خاندان کی خواتین کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔
ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں جذباتی عدم تحفظ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انھیں واقعی برابری کی بنیاد پر معاشرے میں شامل کیا جا سکے۔ اس کے لیے معاشرتی سطح پر گفتگو اور تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم دینے سے صرف ان کی زندگی ہی بہتر نہیں ہوتی، بلکہ پورا معاشرتی نظام ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو پوری طرح یقین دلائیں کہ ہم ان کے محافظ ہیں۔ وہ اپنی تعلیم، کام اور دیگر فرائض کو پورے اعتماد کے ساتھ سر انجام دے سکتی ہیں، لیکن یہ سب کچھ پردے کے پیچھے شائستگی اور عزت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود، جب بھی انہیں باہر کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، وہ بلا جھجھک اور بے خوفی کے ساتھ گھر میں آکر اس کا اظہار کر سکتی ہیں۔ یہ اعتماد اور حفاظت کا احساس انہیں زندگی میں آگے بڑھنے اور اپنے مقاصد کو پوری توانائی کے ساتھ حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔
خواتین کی تعلیم اور خودمختاری کا معاشرے میں اہم کردار ہے۔ قابل احترام اور غیرت مند مرد حضرات اپنی بہنوں کو خود مختار بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پڑھی لکھی خواتین آپ کے لیے زندگی کو آسان بناتی ہیں۔ پڑھی لکھی لڑکیوں کی ہمت اور استقامت نہ صرف مشکل وقت میں انہیں اپنے باپ، بھائی یا شوہر کے ساتھ کھڑی رہنے کی طاقت فراہم کرتی ہے بلکہ انہیں حلال طریقے سے پیسہ کمانے کی صلاحیت بھی دیتی ہے۔
تعلیم یافتہ خواتین گھر کے کاموں، بچوں کی پرورش اور شوہر کے مالی استحکام کو ایک ساتھ کامیابی سے انجام دے سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھی لکھی خواتین زندگی کو ہر اعتبار سے آسان اور بہتر بناتی ہیں۔ لہذا، ہمیں اپنے گھروں سے اس تحریک کا آغاز کرنا چاہیے، اور ہر بھائی، باپ اور شوہر کو اپنی گھر کی لڑکیوں کو بااختیار بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک باشعور اور ترقی یافتہ نسل کے لیے مل جل کر کام کریں۔