یومِ تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں

رانی عندلیب
28 مئی پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جب پاکستانی قوم نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم اپنی خودمختاری، سالمیت اور دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یہ دن پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کا دن ہے، جسے ہم یومِ تکبیر کے نام سے مناتے ہیں۔
بدقسمتی سے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل میں اس دن کی اصل اہمیت اور پس منظر سے لاعلمی بڑھتی جا رہی ہے۔ بیشتر نوجوان اس دن کو صرف ایک سرکاری چھٹی کے طور پر جانتے ہیں، اور ان کے لیے یہ دن تفریح یا آرام کا بہانہ بن کر رہ گیا ہے۔
لیکن حالیہ دنوں میں جب پاک بھارت کشیدگی ایک مرتبہ پھر خبروں میں سرخیوں کا مرکز بنی، تو نئی نسل نے پہلی بار یہ سوچنا شروع کیا کہ ایٹمی طاقت حاصل کرنا محض ایک عسکری کامیابی نہیں، بلکہ ایک قومی ضرورت تھی، جو ہماری آزادی اور بقا کے لیے ناگزیر تھی۔
یومِ تکبیر ہمیں 1998 کے اُن دنوں کی یاد دلاتا ہے جب عالمی دباؤ کے باوجود پاکستان نے دشمن کے مقابل کھڑے ہو کر ایٹمی تجربات کئے۔ بھارت نے جب مئی 1998 میں پانچ ایٹمی دھماکوں کے تجربے کئے تو جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا۔
پاکستان پر دنیا بھر سے دباؤ تھا کہ وہ خاموش رہے، لیکن قومی قیادت، سائنسدانوں اور عوام کے اتحاد نے دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان نہ صرف ایک پرعزم قوم ہے بلکہ اپنی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کی انتھک محنت نے پاکستان کو وہ طاقت عطا کی جس سے دشمن کو بھی دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو نہ اس دن کی تاریخی اہمیت کا مکمل ادراک ہے اور نہ ہی ان قربانیوں کا جنہوں نے ہمیں یہ دن دکھایا۔ لیکن جب حالیہ کشیدگی نے ایک مرتبہ پھر جنگ کا ماحول پیدا کیا، تو بہت سے نوجوانوں کو احساس ہوا کہ ملک کے دفاع کے لیے ایٹمی صلاحیت کتنی اہم ہے۔
انہوں نے محسوس کیا کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو شاید دشمن ہمیں بار بار للکارتا اور ہم بے بس ہوتے۔ یہی احساس نوجوانوں کو دوبارہ اس طرف لے کر آیا کہ یومِ تکبیر صرف ایک جشن نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے، ایک یاد دہانی ہے کہ ہم نے کتنی مشکلات کے بعد یہ طاقت حاصل کی اور ہمیں اس کی قدر کرنی ہے۔
یومِ تکبیر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ صرف ہتھیار رکھنا کافی نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک مضبوط قوم، ایک متحد عوام، اور ایک باشعور نسل کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لیے آج کی نوجوان نسل چاہے پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، اس سب کو اس دن کی اصل اہمیت سے آگاہ ہونا چاہیے۔
سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اس دن کے حوالے سے بیداری پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ محض چھٹی منانا یا یومِ تکبیر کے نام پر سیر و تفریح کرنا ہماری آنے والی نسلوں سے ناانصافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس دن کو علم، شعور، قومی اتحاد اور ملکی دفاع کی علامت کے طور پر منائیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک مضبوط اور باوقار ریاست کے طور پر دنیا میں اپنی شناخت قائم رکھے، تو نئی نسل کو یومِ تکبیر کے حقیقی مفہوم سے روشناس کرانا ہوگا۔ ہمیں انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ یہ دن نہ صرف ماضی کی کامیابیوں کی یاد ہے بلکہ مستقبل کی ذمہ داریوں کا بھی اعلان ہے۔
ہمیں یہ دن اس جذبے سے منانا ہے جیسے 1998 میں پوری قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہی جذبہ ہمارے آج کے نوجوانوں میں منتقل ہوگا تو پاکستان کا دفاع، سالمیت اور خودمختاری ہمیشہ محفوظ رہے گی۔