بلاگزعوام کی آواز

اسے صرف بیٹی ہونے کی سزا ملی… اور وہ مر گئی!

حمیرا علیم

دنیا کے کئی پسماندہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بیٹی کی پیدائش باعث عار سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ تعلیم، شعور، اور دین اسلام کی تعلیمات اس سوچ کی نفی کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ والدین اب بھی بیٹیوں کو دنیا میں آنے کا حقدار نہیں سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات یہ سوچ انہیں قاتل بننے پر آمادہ کر لیتی ہے۔ اور وہ اپنی کم سن بیٹیوں کو قتل کر کے نہ صرف مجرم بن جاتے ہیں بلکہ اللہ کی نافرمانی کر کے اس کے غضب کے مستحق بھی قرار پاتے ہیں۔

حال ہی میں پنجاب کے ایک دیہی علاقے میں ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا جس نے ہر حساس دل کو تڑپا دیا۔ جس میں بچیاں کھیلتے ہوئے پیٹی میں گھس گئیں اور دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ آٹھ سے ایک سال کی چھ بچیاں گندم والی پیٹی میں کیسے داخل ہوئیں اور پھر ڈھکن کیسے بند ہو گیا۔ کیا انہوں نے مدد کے لیےکوئی چیخ و پکار نہیں کی، کسی نے ان کی آوازیں نہیں سنیں۔ گھر میں کوئی موجود نہیں تھا تو اتنی چھوٹی بچیوں کو اکیلے کیوں چھوڑا گیا۔جبکہ ان کا تین سالہ بھائی والدین دادا کے پاس چھوڑ کر کام پر گئے تھے۔کیا دادا کے پاس ان سب کو نہیں چھوڑا جا سکتا تھا؟ اگرچہ ابھی تک تفتیش کے نتیجے میں یہ حادثہ ہی لگ رہا ہے لیکن اس معاملے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو کہ مشکوک ہیں۔

ایک اور واقعے میں والد نے والدہ کو اس کے میکے بھیج کر اپنی دو معذور بچیوں کو جو چلنے پھرنے سے قاصر تھیں۔بھینسوں کے باڑے میں موجود پانی کے حوض میں پھینک کر مار دیا اور پولیس کو یہ کہا کہ وہ گھر پر موجود نہیں تھا بچیاں حوض میں گر گئیں۔ بعد ازاں دوران تفتیش اس نے اپنا جرم قبول کر لیا اور کہا کہ وہ ان کی دیکھ بھال اور ان کے علاج پر آنے والے خرچ سے تنگ آ چکا تھا لہذا انہیں قتل کر دیا۔

قصور کے ایک گاؤں میں سات سالہ بچی کو اس کے والد نے زہر دے دیا کیونکہ بیٹے کی خواہش پوری نہ ہونے پر وہ بیٹیوں سے بیزار ہو چکا تھا۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بھی اس نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جہاں بچیوں کو کنویں میں پھینک کر کہا گیا کہ وہ خود گر گئی تھیں۔

مئی 2021 میانوالی میں ایک شخص نے تین بیٹیوں جن کی عمر 4، 3 اور ڈیڑھ سال تھی اس لیے مار دیا کہ وہ بیٹیوں کی پیدائش سے نالاں تھا۔ اگست 2022 گوجرانوالہ میں تیسری بیٹی کی پیدائش پر والد نے غصے میں ایک سالہ بیٹی کو زمین پر پٹخ کر مار دیا۔ جب والدین ہی قاتل بن جائیں تو سوال یہ نہیں ہوتا کہ بچی کیسے مری سوال یہ ہوتا ہے کہ انسانیت کہاں مر گئی؟

دکھ کی بات یہ ہے کہ ان واقعات میں صرف مرد ہی قصوروار نہیں بلکہ وہ خواتین بھی برابر کی شریک ہیں جو بیٹے کے گھر پوتی کی پیدائش پر بہو کو مجرم گردانتی ہیں حالانکہ یہ فیکٹ سائنس سے ثابت شدہ ہے کہ بیٹے کی پیدائش مرد کے کروموسوز پر منحصر ہے۔ بعض اوقات خواتین کو بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں طلاق دے دی جاتی ہے یا موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

ایسے لوگ خصوصا خواتین یہ نہیں سوچتے کہ وہ خود بھی عورت ہیں اور ان کی بھی بیٹیاں ہیں اور اگر صرف بیٹے ہی پیدا ہوں گے تو نسل انسانی کی افزائش کیسے ہو گی؟

شاید دور جاہلیت کی طرح بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی ان لوگوں کے ذہن میں بچیوں کی تعلیم، شادی، جہیز کے اخراجات اور خاندان کی عزت جیسے خیالات آتے ہیں۔ اس پر متضاد اگر بچی ذہنی یا جسمانی کمزوری کا شکار ہو تو لوگوں کے طعنوں کے خوف سے بھی اسے مار دیا جاتا ہے۔

اسلام نے بیٹی کو بوجھ نہیں رحمت قرار دیا ہے۔ نبیﷺ نے بیٹی کی پرورش کو جنت کا ذریعہ بتایا اور بارہا بیٹیوں سے حسنِ سلوک کی تلقین کی۔ آپ نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں وہ قیامت کے دن میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ قرآن نے زمانہ جاہلیت کی اس رسم کو ختم کیا جس میں لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔آج اگر کوئی شخص بیٹی کو مار کر اسے حادثہ ظاہر کرتا ہے تو گویا وہ زمانہ جاہلیت کی زندہ دفن کرنے والی رسم کو زندہ کر رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں کوئی ردِ عمل نظر نہیں آتا۔

ہماری اس سوچ کی وجہ سے اب تو بیرون ملک مقیم پاکستانی جب گائناکالوجسٹس سے بچے کی جینڈر پوچھتے ہیں تو وہ بتانے سے انکار کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ جونہی انہیں معلوم ہوا کہ بیٹی کی پیدائش متوقع ہے اسے ابارٹ کر دیا جائے گا اور پاکستان میں تو زیادہ تر ابارشنز اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ جب انہیں یہ علم ہوا کہ ان کے ہاں چوتھی بیٹی کی پیدائش متوقع ہے تو ان کے شوہر نے ایک مڈوائف سے انجیکشن لگوا کر ان کا حمل ضائع کروا دیا اور اس کے بعد ایسا مزید دو بار ہوا۔ کیونکہ ان کے شوہر مزید بچیاں نہیں چاہتے تھے۔

اسلامی نقطہ نظر سے بیٹی کو قتل کرنا گناہ ہے اور ساتھ ہی پاکستانی قانون بھی اسے قتل ہی سمجھتا ہے لیکن اکثر واقعات میں غربت اور مجبوری کا بہانہ بنا کر بیٹی کی موت کا سبب بیماری یا کوئی چوٹ ، چھت سے گرنا بتا کر جرم چھپا لیا جاتا ہے اور پولیس بھی بجائے اپنا فرض سرانجام دینے کے کوتاہی برتتی ہے۔

اگرچہ چائلڈ اور ویمن پروٹیکشن کے ادارے موجود ہیں قوانین بھی ہیں مگر ان پر عملد رآمد نہیں ہوتا۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ معاشرہ بیٹی کو بوجھ نہیں بلکہ رحمت سمجھے۔۔ اسکول، کالجز، مدارس اور مساجد میں بیٹی کی اہمیت اور حقوق پر روشنی ڈالنی ہوگی۔ میڈیا کو بھی ایسے واقعات کو صرف رپورٹ کرنے کے بجائے ان پر تحقیقاتی پروگرامز کرنے چاہئیں تاکہ ایسے واقعات کی وجوہات جان کر ان کا سدباب کیا جا سکے۔ ایسے خاندانوں کی رہنمائی،کونسلنگ اور علاج ہونا چاہیئے جن کے ہاں بچیاں معذور یا بیمار پیدا ہوتی ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بیٹے اگر نسل کے وارث ہوتے تو نبیﷺکی بیٹیوں سے ان کی نسل نہ چلتی اور نبیﷺ بیٹیوں کو اتنی عزت نہ دیتے کہ اٹھ کر ان کا استقبال کرتے ان کے ماتھے چومتے۔ ویسے بھی ہم میں سے کتنے لوگوں کو اپنے پڑ دادا کا نام بھی یاد ہو گا ۔تو بہتر یہ ہے کہ دنیا میں نام کمانے زندہ رہنے کے لئے ایسے کام کریں جو ہمارے مرنے کے بعد بھی یاد رکھے جائیں نہ کہ بیٹے پر تکیہ کریں۔

کیونکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بیٹے یا بیٹی میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں تعلیم، جاب، بزنس ہر فیلڈ میں یکساں طور پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے نظر آتے ہیں۔ سچ کہوں تو بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ والدین کا احساس کرتی ہیں۔ اس لیے انہیں مارنے کی بجائے رحمت الہی سمجھ کر ان کی پیدائش پر ویسی ہی خوشی منائیے جیسی بیٹے کی پیدائش پر مناتے ہیں ۔ان کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت کیجئے تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button