نائجیریا نے قرضوں سے نجات پا لی، کیا پاکستان بھی آزاد ہو سکتا ہے؟

حمیرا علیم
کہتے ہیں ادھار محبت کی قینچی ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ اس قینچی کے بنا اقوام کا گزارہ ہی نہیں خصوصا ہم جیسی اقوام کا جن کے حکمران پاؤں اپنی چادر سے ہمیشہ باہر ہی رکھتے ہیں۔ لہذا کبھی مخیر مڈل ایسٹرن حکمرانوں سے مدد کے نام پر بھیک مانگتے ہیں تو کبھی آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضے لیتے ہیں۔ اور بجائے انہیں اتارنے کے سود در سود کے تحت مزید قرض دار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بظاہر قرض بہت بڑا سہارا لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ غلامی کی ان دیکھی زنجیر بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم سر تا پا ان زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہر سال بجٹ سے پہلے اپنے آقا آئی ایم ایف کے در پر حاضری دینے پر مجبور ہیں۔
ایسا نہیں کہ کوئی ملک آئی ایم ایف سے ضرورت قرض لے اور بھٹہ مزدوروں کی طرح زندگی بھر کے لیے اس کا غلام بن جائے۔ کیونکہ ایک ملک ایسا بھی ہےجو کبھی پاکستان سے بھی زیادہ قرضوں میں جکڑا ہوا تھا۔ لیکن آج وہ اپنی معیشت کو ان زنجیروں سے آزاد کر چکا ہے، یہ ملک ہے نائجیریا۔
نائجیریا نے صرف آئی ایم ایف کا قرضہ ادا نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی قرض دہندگان سے 30 ارب ڈالر کے قرضوں میں سے 18 ارب ڈالر معاف کروا کے باقی 12 ارب ڈالر یکمشت ادا کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
سوال یہ ہے کہ نائجیریا جیسا ملک جو بدعنوانی، غربت، اور دہشتگردی سے نبردآزما تھا وہ کیسے یہ کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہوا؟
آئیے نائجیریا کی معاشی داستان پر نظر ڈالتے ہیں۔ نائجیریا کی آزادی کے بعد سے ہی اس کے حکمران طبقے نے قومی وسائل کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں تیل کی دولت کے باوجود ملک میں غربت بڑھی۔ اور حکومتوں نے غیر ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرضے لیے۔ فوجی حکومتیں، سیاسی عدم استحکام، اور ادارہ جاتی کرپشن نے معیشت کو کھوکھلا کر دیا۔
پاکستان کی طرح آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی شرائط میں کرنسی کی قدر میں کمی، نجکاری، اور سبسڈی کے خاتمے جیسے اقدامات شامل تھے جن کا بوجھ عام آدمی نے اٹھایا۔ یوں قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جانے لگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ نائجیریا کی جی ڈی پی کا 80 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا تھا۔
2000 کی دہائی میں جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو نائجیریا کو آمدنی میں اضافے کا ایک موقعہ ملا۔ اس وقت کی حکومت نے غیر ضروری اخراجات کم کئے اور اضافی آمدنی کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کر دیا۔
یہ فیصلہ محض معاشی نہیں بلکہ سیاسی جرات کا متقاضی تھا۔ مگر اصل تبدیلی تب آئی جب نگوزی اوکونجو ایویلا کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔ وہ ایک ماہر معیشت دان تھیں جنہوں نے عالمی بینک میں دو دہائیوں تک خدمات انجام دی تھیں۔ انہوں نے نائجیریا کے مالی نظام میں شفافیت، احتساب، اور نظم و ضبط متعارف کرایا۔
اوکونجو ایویلا نے چند انقلابی اقدامات کیے: ایکسس کروڈ اکاؤنٹ قائم کیا گیا جہاں تیل کی اضافی آمدنی محفوظ کی گئی۔ تاکہ غیر متوقع بحرانوں میں کام آ سکے۔ بڑے پیمانے پر سرکاری اداروں کی نجکاری کی گئی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن نظام میں اصلاحات کی گئیں تاکہ گھوسٹ ملازمین سے نجات حاصل کی جا سکے۔ ٹیکس کا نظام بہتر کیا گیا تاکہ غیر رسمی معیشت کو مرکزی دھارے میں لایا جا سکے۔ اگرچہ یہ اصلاحات وقتی طور پر عوام کے لیے تکلیف دہ تھیں مگر ان کے اثرات دیرپا اور مثبت تھے۔
2005 میں نائجیریا نے پیرس کلب کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا۔ پیرس کلب ترقی پذیر ممالک کو قرض دینے والے 19 ممالک کا گروپ ہے۔ نائجیریا نے ان سے کہاکہ چونکہ وہ اپنی معیشت کو بہتر کر چکا ہے اور قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہےاس لیے باقی قرضے معاف کئے جائیں۔
پیرس کلب نے نائجیریا کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے 12 ارب ڈالر فوری طور پر وصول کئے اور 18 ارب ڈالر معاف کئے۔ اس معاہدے کے بعد نائجیریا نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تمام قرضے ادا کر دیئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی افریقی ملک نے قرضوں کی معافی کے لیے اس انداز سے سفارتکاری اور معیشت کو ایک ساتھ استعمال کیا۔
پاکستان اور نائجیریا کے حالات میں انیس بیس کا ہی فرق ہے۔ بجائے قرض ادا کرنے کے ہم مزید قرضے لے رہے ہیں تاکہ پچھلے قرض کی اقساط ادا کی جا سکیں۔ بجٹ کا بڑا حصہ قرض کی اقساط کے نام پر نکل جاتا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے اب تک 23 مرتبہ قرض لے چکا ہے۔ بجٹ خسارہ، کرنٹ اکاؤنٹ کا دباؤ، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، اور کرپشن نے معیشت کو کمزور کر دیا ہے۔ سرکاری ادارے خسارے میں ہیں۔ ٹیکس نیٹ محدود ہے اور حکومتی اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی کئی سرکاری ادارے سفید ہاتھی بنے خزانے کے لیے سراسر بوجھ اور باعث نقصان ہیں۔حکمران عیاش اور ملک و عوام سے بے نیاز ہیں۔ وسائل تو بے شمار ہیں لیکن استعمال کرنے کا ڈھنگ نہیں۔ اگر ہمارے ہاں بھی آمدنی اور خرچ میں توازن پیدا کیا جائے۔ کرپشن پر کنٹرول اور اعلیٰ سطح پر احتساب کیا جائے۔ کرپشن کے خلاف اداروں کو خودمختار اور غیر جانبدار بنایا جائے۔ قرضہ چھپانے یا ٹالنے کے بجائے حکمت عملی سے ادا کیا جائے۔ح کومت عوام کو اعتماد میں لے کے ایسے منصوبے بنائے دیرپا بہتری کی ضمانت ہوں۔ بجٹ سازی میں شفافیت اور کفایت شعاری اپنائی جائے۔ صرف عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائےحکومت کو اپنی مثال سے ثابت کرنا ہو گا کہ اخراجات کم کئے جا سکتے ہیں۔
خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کی نجکاری یا ازسرنو تنظیم کی جائے۔ حکمران سیاست کو ذاتی مفاد کی بجائے عوامی خدمت کے لئے استعمال کریں اور معیشت پر توجہ دیں۔ غیر ملکی امداد یا اضافی آمدنی کو سبسڈی یا فضول منصوبوں کی نذر کرنے کے بجائے قرضوں کی ادائیگی پر لگایا جائے۔
تو نائجیریا کی طرح ہم بھی قرضوں سے آزاد ہو کر خودمختار ملک بن سکتے ہیں۔ نائجیریا نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو، قیادت مخلص ہو اور حکمت عملی واضح ہو تو قرضوں سے نجات ممکن ہے۔ پاکستان کے پاس بھی وسائل کی کمی نہیں کمی ہے تو صرف نیت، نظم اور وژن کی۔
نائجیریا کی کامیابی پاکستان کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ اگر ہم اس کہانی سے سیکھنے پر آمادہ ہوں تو آنے والے وقت میں پاکستان بھی قرضوں سے آزاد ایک خود مختار ملک بن سکتا ہے۔
ورنہ قرضوں کی یہ زنجیر نسل در نسل ہمیں جکڑے رکھے گی۔ اور ہر آنے والی حکومت پچھلی کی مالی غلطیوں کا بوجھ اٹھاتی رہے گی اور انہیں قصوروار گردان کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑاتی رہے گی۔
یہ وقت ہے فیصلہ کن قدم اٹھانے کا۔ نائجیریا جیسا ملک جو کل تک دنیا کی نظروں میں ناکام ریاست سمجھا جاتا تھا آج قرض سے آزاد ہے۔ تو پاکستان کیوں نہیں؟لیکن اس کے لیے پاکستان کو بھی کسی نگوزی اوکونجو ایویلا کی ضرورت ہے۔