اونٹ کی ڈولی، گھی کا ٹین اور کلاشنکوف کی گونج: محسود قبائل کی شادی کی رسمیں

کلثوم محسود
ایسی خوبصورت تقریبات جو نئی شروع ہونے والی ازدواجی زندگی کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں، اور جن پر ایک پورے معاشرے کا دار و مدار ہوتا ہے، ان ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے محسود قبائل کی شادی کی انوکھی اور دلکش رسومات قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اپنی قدیم تہذیبی و تمدنی روایات سے روشناس ہو سکیں، جو کہ ایک روشن صبح کی نوید ہے۔ کسی بھی قوم یا نسل کی ترقی و بقا کا راز اسی امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی روایات و رواج کو اپنی زندگی کے لائحہ عمل میں کلیدی حیثیت دے۔
محسود قبائل میں جب شادی کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ محسود قبائل عموماً سرسبز پہاڑی وادیوں میں آباد ہیں۔ اس لیے یہ نکتہ قاری کے پیش نظر رہے کہ عنوان پڑھتے وقت وہ علاقے کے زمینی خدوخال سے بھی آگاہی حاصل کر سکے۔ بارات ایک وادی سے دوسری وادی کی طرف ایک لشکر کی صورت میں روانہ ہوتی ہے جس کی میزبانی صرف دلہن کے گھر والے نہیں کرتے بلکہ پوری وادی کے باسی مشترکہ طور پر خوش دلی سے یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔
یہ میزبانی لڑکی کے والد کے لیے ایک خیر سگالی تحفہ ہوتی ہے جو علاقے کے لوگوں کی جانب سے پیش کی جاتی ہے۔ بوریوں میں آٹا و دیگر اشیاء ہر گھر کو مہیا کی جاتی ہیں، اور ہر عورت ان اشیاء سے مخصوص روٹیاں (ویشلئے) تیار کرکے بارات کے پہنچنے سے پہلے دلہن کے گھر پہنچا دیتی ہے، اور پھر خود بھی استقبال میں شریک ہوتی ہیں۔ ویشلئے انڈیا کے ڈوسہ سے مشابہ ہوتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ڈوسہ ایک تہہ کا اور سائز میں چھوٹا ہوتا ہے، جبکہ محسود قبائل میں یہ دو تہوں والی بڑی روٹی ہوتی ہے۔ ایک ویشلئے تین افراد کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسے پیزا کی طرح کاٹ کر گوشت، کلیجی اور دیگر لوازمات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
بارات میں شامل بزرگ، خواتین اور بچے دلہن کے گھر رات گزارتے ہیں جبکہ دیگر مہمان قریبی گھروں میں قیام کرتے ہیں۔ سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ایک لڑکی کی شادی کی خدمت کے لیے پورا گاؤں پیش پیش ہوتا ہے، جو بھائی چارے کی اعلیٰ مثال ہے۔ یہ بھائی چارہ خوشی اور غمی دونوں مواقع پر یکساں نظر آتا ہے۔ چونکہ وزیرستان ایک سنگلاخ پہاڑی علاقہ ہے، جہاں سڑکوں کی رسائی محدود ہے، بعض اوقات دلہن کو گاڑی تک پہنچانے کے لیے اونٹ کو ڈولی کی طرح سجایا جاتا ہے، جیسے کراچی کے ساحل پر نظر آتے ہیں۔
دلہن کی رخصتی سے پہلے اس کی دائیں آنکھ میں سرمہ اور دائیں پاؤں میں جوتا بڑے بھائی کے ہاتھوں پہنایا جاتا ہے، جو ایک دلنشین رسم ہے۔ اس کے بعد دلہن کے دائیں ہاتھ کو گھی کے کنستر اور آٹے کی بوری میں ڈبویا جاتا ہے۔ دروازے سے نکلتے وقت دلہن گندم سے بھری مٹھی پیچھے دالان میں پھینکتی ہے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی۔ یہ رسم پنجاب کے سکھ برادری کی رسومات سے مشابہت رکھتی ہے۔ ایک اور خوبصورت منظر یہ ہے کہ دلہن کی ڈولی جس گھر سے گزرتی ہے وہاں کے مکین کلاشنکوف سے ہوائی فائرنگ کر کے الوداعی سلامی دیتے ہیں۔
یہ فائرنگ دلہن کے والدین کے لیے حوصلہ افزائی اور بیٹی کی جدائی کے غم میں اظہار یکجہتی کے طور پر کی جاتی ہے، اور اس بات کا اعلان بھی ہوتا ہے کہ ہم ہر مشکل وقت میں آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک معزز روایت ہے۔ دلہن گولیوں کی گونج میں اپنے نئے سفر پر روانہ ہوتی ہے۔ سسرال پہنچنے پر دلہن کا استقبال بھی فائرنگ سے کیا جاتا ہے۔ گھر میں داخلے سے پہلے دروازے پر تین کیلیں ٹھونکی جاتی ہیں۔
یہ رسم لازم ہے، اور دلہن تب تک دروازے میں کھڑی رہتی ہے جب تک اس کی ساس با آواز بلند یہ الفاظ نہ کہہ دے کہ میں نے اپنے گھر کا اختیار اپنی بہو کو سونپ دیا۔ یہ الفاظ تین مرتبہ دہرانے کے بعد دلہن دایاں پاؤں گھر میں رکھتی ہے اور وہ اس گھر کی مختار بن جاتی ہے۔ مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے نکاح کا اعلان کیا جاتا ہے تاکہ دور دراز کے لوگ بھی باخبر ہو جائیں اور شادی میں شریک ہوں۔
محسود قبائل میں شادی کی تقریبات صرف خاندان کے افراد کے لیے مخصوص نہیں ہوتیں، بلکہ جتنے زیادہ وادیوں اور علاقوں سے لوگ شریک ہوں، اتنی زیادہ فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔ خوشی اور کھانے کا دائرہ جتنا وسیع ہو، اتنی بابرکت شادی تصور کی جاتی ہے۔ شادی کا پہلا دن اہل علاقہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے، جس میں کھانے پینے، ملاقاتوں اور آتشبازی کا سلسلہ رات دیر تک جاری رہتا ہے۔ دوسرا دن صرف قریبی رشتہ دار خواتین کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔
دوسرے دن کی تقریب میں خواتین دلہن سے تعارف کراتی ہیں اور تحفے تحائف دیتی ہیں۔ تیسرا دن علاقے کی تمام عورتوں اور لڑکیوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اس دن مردوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ دلہن خود میٹھے پکوان تیار کرتی ہے۔ پھر دلہن کے دوپٹے کے چاروں کونوں سے تھوڑی مقدار میں خوراک باندھی جاتی ہے، جو چشمے میں پانی بھرنے کی رسم کے دوران پانی میں شامل کی جاتی ہے، اور چشمے کی مچھلیوں کی غذا بنتی ہے۔
یہ رسم اگرچہ ہندوستانی رسومات سے مشابہت رکھتی ہے، مگر یہاں ایک خوبصورت امتیاز یہ ہے کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ آبی مخلوق بھی اس خوشی میں شریک ہوتی ہے۔ واپسی پر دلہن سب خواتین کے لیے چائے تیار کرتی ہے، جو لازم ہے۔ اس کے بعد دلہن کے والدین کی جانب سے دیا گیا بڑا سا صندوق کھولا جاتا ہے جس میں سے علاقے کی خواتین اور بچوں کو تحائف دیے جاتے ہیں، یہ میزبانی کی علامت ہے اور اس بات کی گواہی ہے کہ دلہن اب اس گھر کی مالکہ ہے۔
تاہم، اب دلہن چشمے یا ندی کی بجائے گھر کے نلکوں سے مٹکا بھر کر یہ رسم ادا کرتی ہے، کیونکہ دہشت گردی کے باعث نہ صرف وزیرستان کا امن متاثر ہوا ہے، بلکہ شہری علاقوں میں نقل مکانی کے بعد روایات بھی اپنے اصل رنگوں سے محروم ہو چکی ہیں۔