بلاگزعوام کی آواز

شفقت یا سختی؟ والدین کی تربیت میں توازن کیسے قائم ہو؟

حمیرا علیم

آج کل ہر طرف جینٹل پیرنٹنگ کا چرچا ہے۔ چند عشروں پہلے تک لوگ نہ شادی کی پلاننگ کرتے تھے نہ اولاد کی، لیکن جدید دور میں ہر چیز پلاننگ سے کی جاتی ہے لہذا اولاد کی تربیت بھی نت نئے طریقوں سے کی جانے لگی ہے۔ والدین بچہ پیدا ہونے سے پہلے اس کی تربیت کے لیے کتب پڑھتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اور بچوں کی تربیت کے ماہرین کے سیشنز اٹنینڈ کرتے ہیں۔

جینٹل پیرنٹنگ میں بچوں کے احساسات، جذبات اور رحجانات کو جان کر بنا سختی یا ڈانٹ مار کے محبت کے ساتھ، مکالمے کے ذریعے تربیت کی جاتی ہے تاکہ بچے مثبت شخصیت کے مالک بنیں۔ اس طریقے میں والدین بچے کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اور بچے سے گفتگو کر کے بچے کو ایک بڑے شخص کے طور پر ٹریٹ کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مار پیٹ  اور بے جا سختی بچے کو وقتی طور پر تو چپ کروا دیتی ہے مگر اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ باغی بن جاتا ہے۔

ایسا شاید مغربی ممالک میں ہوتا ہو۔ اگر ہم اپنی دادی نانی کی تعلیم و تربیت کا اس طریقے سے موازنہ کریں جن کی اکثریت ان پڑھ اور کم از کم آدھ سے پورا درجن بھر بچوں کی ذمہ داری نبھاتی تھی۔ والدین تو ٹکاتے ہی تھے اساتذہ بھی معمولی باتوں پر دھنک کے رکھ دیتے تھے۔  تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے والدین کی نسل بہت با ادب، محنتی، بڑوں کا احترام کرنے والے، کم گو اور ہر کسی کی بات غور سے سننے والے، متحمل مزاج، وقت کے پابند، حقیقت پسند، مضبوط شخصیت کے مالک، زندگی کے مصائب کا بہادرانہ مقابلہ کرنے والے تھے۔ اس دور کے میٹرک پاس شخص کا آج کے ماسٹرز سے موازنہ کریں تو میٹرک پاس زیادہ علم والا ہو گا۔ باوجود اساتذہ کی سختی کے ان کے لیے محبت و احترام کے جذبات رکھتا ہے۔

جبکہ جینٹل پیرنٹنگ کے پروردہ بچے والدین کو منہ پر جواب دینے والے، منہ پھٹ، بد لحاظ، بدتمیز،بحث کرنے والے، جلد بور ہو جانے والے مضطرب مزاج،جذباتی، غصیلے،کمزور شخصیت کے مالک زندگی کے مصائب کا مقابلہ کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کرنے والے اور بعض کیسیز میں خودکشی یا قتل کرنے والے ہیں۔

ہر دور میں بچوں کی مختلف کیٹیگریز رہی ہیں کچھ بچے نرمی سے بات سمجھ جاتے ہیں جب کہ کچھ لاتوں کے بھوت ہوتے ہیں جو باتوں سے نہیں مانتے۔ اس لیے والدین ہوں یا اساتذہ ہر بچے کواس کی فطرت و عادت کے مطابق ڈیل کرتے ہیں۔

ہمارے دور میں بھی والدین اور اساتذہ کے علاوہ کوئی محلے دار یا انجان شخص بھی کسی بچے کو غلط کام کرتے دیکھ کر دو لگا دیتا تو نہ والدین برا مانتے تھے نہ ہی بچے کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس ڈانٹ مار کا مقصد کوئی ذاتی دشمنی نبھانا یا بچے کی شخصیت کو مسخ کرنا نہیں بلکہ اسے سدھارنا ہے۔چمحبت اور بچے کی شخصیت بہتر بنانے کے لیے فکرمندی کا ایک طریقہ اظہار ہے۔ سختی سے ان کے کردار مضبوط ، شخصیت عاجز اور نفس قابو میں رہے۔

اگر ہم قرآن و حدیث کے طریقہ پیرنٹنگ کو دیکھیں تو نرمی کے ساتھ حکمت، پابندی، جزا و سزا کا حکم بھی ہے۔ اگر نبیﷺ بچوں کے ساتھ عزت و شفقت سے پیش آتے تھے تو جہاں انہیں غلط کام کرتے دیکھتے ٹوکتے اور درست کام کا بھی بتاتے تھے۔ تبھی حدیث نماز پڑھانے کے لئے سات سال کی عمرکے بعد مارنے کی تجویز دیتی ہے اور قرآن کے آخری دس پارے جہنم اور سزاوں کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔

والدین کو سونے کا نوالہ کھلانا مگر شیر کی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے تبھی اولاد راہ راست پر رہتی ہے۔ اسی لیےتو آج کل بھی ہیلی کاپٹر، ٹائیگر، ایلیفینٹ، اوسٹریچ، برک وال پیرنٹنگ بھی موجود ہے۔جس میں والدین بچوں کو نظم و ضبط سکھانے کے لیے سختی کرتے ہیں۔  ان کے اصولوں سے انحراف کی صورت میں بطور سزا سوشل میڈیا، انٹرنیٹ کا استعمال،  باہر جانا، دوستوں سے ملنا ، پارٹیز اٹنیڈ کرنا، پاکٹ منی بند کرنا یا کچھ دیر کے لیے تنہا کہیں کھڑا کرنا کمرے میں بٹھانا سب شامل ہیں ۔

جینٹل، جیلی فش، پانڈا، ہممنگ برڈ  پیرنٹنگ تب کام کرتی ہے جب بچہ فطرتا اطاعت گزار ہو۔ جب بچہ انٹرنیٹ کا دیوانہ ہو جس کی وجہ سے وہ غصیلا، بدتمیز اور جلدباز بن جائے تو اسے والدین کی اہمیت و مقام، اس کی حدود سکھانے اور یہ بتانے کے لیے کہ دنیا میں ہر کام اس کی مرضی سے نہیں ہو سکتا سختی ہی واحد حل ہوتا ہے۔ اس طریقے سے وہ والدین کو اپنا خدمت گزار، صرف ہر چیز مہیا کرنے والے، کم عقل، اولڈ فیشنڈ، بورنگ سمجھنا چھوڑ کر اہم  رشتہ،اتھارٹی اور قابل احترام سمجھنے لگتا ہے۔

اس لیے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم روایتی طریقوں کی اچھی باتیں بھی لیں اور نئے سے بھی مستفید ہوں۔ تاکہ باکردار، فرمانبردار اورمضبوط و با ادب شخصیت پروان چڑھا سکیں۔ فرینڈلی پیرنٹنگ اور نرمی کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے وہ والدین کو دوستوں کی طرح ٹریٹ کریں ان کی بات کو اہمیت ہی نہ دیں۔ بلکہ ان کے اصولوں پر پابندی کو فرض سمجھا جائے لیکن اگر بچے انہیں توڑیں تو ان کو احساس دلایا جائے سزا نہیں۔ رہنمائی کی جائے۔ جس سے بچے کو والدین پر اعتماد، جذباتی ذہانت، دوسروں کے جذبات کا احترام، غلطی تسلیم کر کے اسے سدھارنے کی عادت، مثبت رویہ، باغی نہ بننا، سچ بولنا جیسی عادات پختہ ہوتی ہیں۔

جو بچے اس نرمی کاناجائز فائدہ اٹھا کر بے لگام اور مادر پدر آزاد ہو جائیں، حدود سے تجاوز کریں، خصوصا ٹین ایجرز ان کے لیے سختی موثر علاج ہے۔ اب تو مغرب بھی پیار نہیں مار کو موثر سمجھنے لگا ہے۔ سائبیریا کے ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ وہ منشیات، شراب نوشی یا جنسی تعلقات کے عادی افراد کو جسمانی سزا دے کر ، پیٹ کر ان کی عادات کو ختم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔اور یہ علاج اس قدر کامیاب ہے کہ امریکہ سمیت کئی ممالک کے لوگ وہاں جاتے ہیں۔اس طریقے میں ایک سیشن میں بید کی چھڑی سے ساٹھ اسٹروکس کے 60 پاونڈز چارج کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے  ہاں والدین اور اساتذہ یہ سہولت مفت مہیا کرتے ہیں، پھر بھی برے بنتے ہیں۔

نہ صرف سائبیریا بلکہ نیوزی لینڈ، کینیڈا، امریکہ،  یوکے، ساوتھ افریقہ جہاں جہاں میرا کوئی جاننے والا رہتا ہے وہ میرے ان خیالات سے متفق ہیں کیونکہ مغربی لوگ ہمیشہ ہم مشرقیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر انجوائے کرتے ہیں اور وہ کام خود بھی نہیں کرتے جن کا ہمیں پرچار کرتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچوں کے لیے آپ جو مناسب سمجھیں وہ کیجئے کسی موٹیویشنل اسپیکر یا سوکالڈ ماہر نفسیات کی نہ مانیے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button