‘ انڈیا پاکستان کی جنگ یا مذاق’، جنگ کوئی میم یا لطیفہ نہیں بلکہ ایک قیامت ہے

حمیرا علیم
دنیا میں جب بھی کسی علاقے میں جنگ ہوئی تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ انڈیا پاکستان اس تلخ حقیقت کا سامنا دو بار کر چکے ہیں۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے نتائج بھگت چکے ہیں۔ لیکن نہ دونوں ممالک کے حکمران سمجھے ہیں نہ ہی عوام۔ انہوں نے اس سنگین و خطرناک سانحے کو سیاسی کھیل اور تفریحی ڈرامہ بنا لیا ہے۔جھوٹے حملوں، فرضی سرجیکل اسٹرائیکس، اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے انڈیا نے بارہا پاکستان پر الزام تراشی کر کے اپنے مفادات کا کھیل کھیلا۔ انڈیا کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ پاکستان دشمنی دکھانے اور اپنی سیاسی ناکامی کو چھپانے کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے۔
چلیے سیاستدانوں کا تو دنیا بھر میں یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے ایسےجھوٹ سچ بولتے ہی رہتے ہیں۔لیکن انڈیا پاکستان کی عوام نے بھی اسے کھیل تماشہ سمجھ رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ممیز ہوں، کرکٹ میچز، فلمز، ڈرامے یا گانے ،جنگی نعرے اور اشتعال انگیز رویے عام ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت ‘ اری، شیرشا، بارڈر جیسی فلمیں بنا کر ہر مسلمان خصوصا پاکستانی کو دہشتگرد بنا کر پیش کر رہ ہے اور نہ صرف حقائق مسخ کر کے جنگی جذبات کو ہوا دیتا ہے بلکہ اربوں کما بھی رہا ہے۔لوگ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کی ہولناکی کو سمجھنے کی بجائے کوئی گیم سمجھ بیٹھے ہیں۔
آج جنگ صرف سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ پہلے سوشل میڈیا پر لڑی جاتی ہے. کیونکہ سوشل میڈیا پر عوام اپنے جذبات کا اظہار آزادی سے کر سکتی ہے۔ کرکٹ میچ میں ہار ہو یا کوئی دہشتگرد حملہ فیس بک، ایکس، انسٹا گرام اور واٹس ایپ پر انڈین اور پاکستانی عوام کے درمیان لفظی جنگ چھڑ جاتی ہے یہی پچھلے چند دنوں سے ہو رہا ہے مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ صرف وقتی غصہ نہیں رہا بلکہ یہ معصوم تفریحی عنقریب کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کیونکہ ابتداء میں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، شکست پر شیم کرنے، فتح کا جشن منانے سے ہوتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ الفاظ نفت آلود ہوتے جاتے ہیں اور بات صرف ایک گیم یا سیاست تک محدود نہیں رہتی بلکہ صدیوں پرانے زخم کریدے جاتے ہیں۔ یہ لفظی جنگ سفارتی و تجارتی تعلقات اور معاہدوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ جیسا کہ انڈین نے سندھ طاس معاہدہ ختم کر کے سفارتی عملے کو نکال دیا ہے۔
جب ایک قوم دوسری قوم کی مقدس شخصیات، تاریخی واقعات اور دین کا مذاق اڑاتی ہے تو یہ محض ایک ہنسی مذاق نہیں رہتا بلکہ یہ اجتماعی شعور کو زخمی کرنے کا باعث بنتا ہے۔ عوام میں غم و غصہ، انتقام اور نفرت کے جذبات بھڑکنے لگتے ہیں۔ جب روزانہ ہزاروں لوگ میمز وار لڑتے ہیں تو یہ نفسیاتی جنگ کسی بھی وقت حقیقی میں بدل سکتی ہے۔
یہ روش صرف عوامی سطح تک محدود نہیں رہی بلکہ حکمرانوں اور افواج کے ترجمانوں کی طرف سے بھی بیانات ایسے انداز میں آتے ہیں جو مزید اشتعال انگیزی اور تماشے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
بیانات میں الفاظ کا انتخاب اکثر غیر سنجیدہ، اشتعال انگیز اور عوامی مقبولیت کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ کبھی کوئی سیاسی رہنما "دشمن کو سبق سکھانے” کی دھمکی دیتا ہے تو کبھی کوئی فوجی ترجمان "چائے پلانے” یا "سر پر جھنڈا لہرانے” جیسے جملوں سے مخالفین کا مذاق اڑاتا ہے۔ یہ سب وقتی طور پر تفریحی سامان تو ہو سکتا ہے لیکن جنگ کا خطرہ ٹلتا نہیں بلکہ بڑھ جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر سنجیدہ مسائل پر مزاح عوامی شعور کو سطحی بنا دیتا ہے۔ اور عوام یہ بھول جاتی ہے کہ جنگ ایک ٹرینڈ، ہیش ٹیگ، وائرل ویڈیو نہیں بلکہ دو ممالک کے پیسے، جانوں، وقت کے زیاں کے ساتھ ساتھ خطے کے امن کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ یہ کوئی فلم نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ انڈیا کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل اور اچھے تعلقات چاہے ہیں۔ جبکہ بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے ایسی تمام کوششوں و جھٹلایا ہے۔ انڈیا کو سمجھنا ہوگا کہ جھوٹے ڈرامے رچانے اور جنگی جنون بھڑکانے سے نہ تو سچ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا انڈیا کو اس قسم کے مضحکہ خیز ٹیکٹیکس استعمال کر کے خطے میں بدامنی پھیلانے سے روکے اور دونوں ممالک کے درمیان صلح کے لیے اقدامات کرے۔کیونکہ اگر ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو اس کا اثر صرف پاکستان اور انڈیا پر ہی نہیں ہو گا بلکہ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی۔اگرچہ پاکستان اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر ایسی سازشوں کا بھانڈا پھوڑ چکا ہے مگر دنیا مظلوم کی نہیں ظالم کی مددگار بنی ہوئی ہے۔
دونوں طرف کی عوام، افواج اور حکمرانوں کو ایک بار یوکرین، شام، کشمیر، فلسطین، افغانستان میں ہوئی جنگوں اور ہیرو شیما پر گرائے ایٹم بم کے اثرات پر نگاہ دوڑا کر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان کے ان بچکانہ بیانات کی وجہ سے جنگ چھڑ گئی تو دونوں ممالک کا کیا حشر ہو گا۔
جنگ کوئی میم یا لطیفہ نہیں بلکہ ایک قیامت ہے اور سوشل میڈیا پر بیانات محض وقتی تفریحی نہیں بلکہ کسی سانحے کی بنیاد بھی بن سکتے ہیں۔ ہوش کے ناخن لیجئے اور امن کے لیے کوشش کیجئے۔ دونوں طرف کی حکومتوں کو ایسی پوسٹس اور اکاوئنٹس پر پابندی عائد کرنی ہو گی جو انتشار پھیلانے کی کوشش کر کے تھرڈ ورلڈ وار کا سامان کر رہے ہیں۔
نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ ریاستی سطح پر بھی اس بیان بازی کو روکنا ہو گا۔ کیونکہ سیاسی کشیدگی ہو تو آنلائن اشتعال انگیزی پالیسی سازوں پر دباؤ ڈال کر انہیں سخت فیصلے کرنے پر مجبور کر سکتی ہے جو کسی تنازعے کو کھلی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک جھوٹی خبر، ویڈیو سب سے خطرناک ہتھیار ہے۔ عوام جذبات میں آکر حکمرانوں پر جنگ کے لئے دباؤ ڈالتی ہے۔اور بعض اوقات حکومتیں اس دباو کے زیر اثر غلط قدم اٹھا لیتی ہیں۔ اس لیے بجائے غلط فہمیاں بڑھانے کے امن کے لیے کوشش کیجئے۔عوام کو سکھائیے کہ بنا تحقیق ہر خبر پر ردعمل نہ دیں۔ نہ ہی اسے آگے شیئر کریں۔