بلاگزعوام کی آواز

نکاح جیسا مقدس رشتہ… ہمارے ہاتھوں مذاق کیوں بن گیا ہے؟

ایزل خان

جیسے جیسے معاشرہ تعلیم یافتہ ہوتا جا رہا ہے، طلاق کی شرح میں اضافہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ کئی لوگ اس بات پر اپنی رائے دیتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ عورتیں اب کم برداشت کرتی ہیں، جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ خواتین کی زبان زیادہ دراز ہو گئی ہے۔ لیکن میرے خیال میں شادی شدہ زندگی کی ناکامی کے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شاید یہ تمام وجاہات مل کر یہ مسئلہ پیدا کرتی ہیں۔

آج کے تعلیم یافتہ دور میں بھی، بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نکاح کی اصل اہمیت اور مقصد کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتے۔ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب انسان بڑا ہو جائے تو شادی کرنی چاہیئے یا پھر سوسائٹی میں جب دیگر لوگ شادی کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں بھی شادی کرنا ضروری لگتا ہے۔ لیکن اکثر ان کے ذہن میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ شادی صرف ایک معاشرتی رسم نہیں بلکہ ایک بڑی زمہ داری بھی ہوتی ہے۔

شادی کے بعد اگر شوہر کے پاس اتنے مالی وسائل نہ ہوں یا کوئی مشکلات درپیش ہو، تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو حوصلہ دے اور طنز یا طعنے دینے کی بجائے مل کر زندگی کی راہ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ فلاں کی بیوی نے اتنی شاپنگ کی، آپ نے میرے لئے کیا کیا ہے۔ اس طرح کے مادی تقاضے ان کے رشتے میں تلخی پیدا کر سکتے ہیں۔

ان حالات کے باعث بعض لڑکیاں غلط راستے اختیار کر لیتی ہیں اور ناجائز تعلقات قائم کر لیتی ہیں، جو نا صرف ان کی اپنی شادی شدہ زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں، بلکہ ان کے والدین کے لئے بھی شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ شادی کا اصل مقصد محبت، بھروسہ، احترام اور ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے۔ معاشرتی دباؤ کے بجائے ان اصولوں کو بنیاد بنا کر زندگی گزارنی چاہیئے۔

آج میں آپ سب کے ساتھ ایک دل کو چھو جانے والی حقیقت پر مبنی کہانی شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ علاقے میں جہاں میں رہتی ہوں، وہاں ایک لڑکی کے بارے میں سننے کو ملا، جس کی شادی ایک سال پہلے ختم ہو گئی تھی، لیکن اس کی زندگی کی مشکلات یہاں ختم نہیں ہوئیں۔ اس لڑکی کی دو بڑی بیٹیاں اور ایک چھوٹا بیٹا تھا۔ اس کی شادی شدہ زندگی مالی اعتبار سے بہتر تھی کیونکہ شوہر ان کے تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی پیسے بھیجتا تھا۔ تاہم، اس کی خواہشات ابھی بھی تشنگی کا شکار تھیں۔

لڑکی نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش میں ایک لڑکے سے فون پر بات چیت کرنا شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس لڑکے کے ساتھ بھاگ کر سسرال چھوڑ دیا۔ تاہم، اس کے شوہر کی محبت اور ان دونوں کی بیٹیوں کی خاطر اس نے اپنی بیوی کو معاف کر دیا اور اسے گھر واپس بلا لیا۔ پھر بھی، یہی سب کچھ دوبارہ رونما ہوا، اور نتیجتاً شوہر نے اسے طلاق دے دی، جرگے کے فیصلے کے مطابق دونوں بڑی بیٹیاں اپنے باپ جبکہ چھوٹا بیٹا ماں کے حصے میں آیا۔

یہ کہانی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ زندگی میں فیصلے کرتے وقت ہمیں کس قدر محتاط رہنا چاہیئے اور تعلقات میں وفاداری اور اعتماد کی اہمیت ہوتی ہے۔ کچھ مہینے اس لڑکی نے اپنے والد کے گھر میں گزارے، جہاں اس کی شادی ایک شخص سے ہوئی جسے پہلے سے طلاق ہو چکی تھی اور اس کے تین بچے تھے۔ شادی کے بعد یہ لڑکی بہت خوش تھی اور سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد، لڑکی حاملہ ہوگئی۔ ابھی دو دن پہلے مجھے اطلاع ملی کہ اس لڑکی کی ایک دوسری شادی شدہ مرد کے ساتھ فون پر دوستی ہو گئی تھی۔ یہ مرد عمر میں بڑا تھا اور وہ بھی شادی شدہ اور اس نے لڑکی کو کافی پیسے بھی بھیجے تھے، جو وہ اب واپس مانگ رہا ہے۔

جب اس معاملے کے بارے میں لڑکی کے شوہر اور ساس کو علم ہوا تو نتیجہ یہ نکلا کہ جب بچہ پیدا ہو گا، تو لڑکی کا شوہر اسے طلاق دے دے گا۔ جب میں نے یہ بات سنی تو میرا دل دہل گیا، کیونکہ ماں کی کی گئی بے وفائی کے باعث چار معصوم بچوں کی زندگیاں برباد ہوگئیں۔

نکاح جیسا پاکیزہ عمل ہمارے معاشرے میں کیوں مذاق بن گیا ہے؟ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شادی کے بعد مرد و عورت ایک دوسرے کے پابند ہیں۔ نہ لڑکی کو اپنی ذاتی خواہشات اور مالی فوائد کی خاطر بے وفائی کی اجازت ہے، نہ مرد کو باہر کے تعلقات کا حق ہے۔ اگر شادی شدہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں کرتا تو بہتر طریقے سے رشتہ ختم کریں، لیکن ایسی گھٹیا حرکات سے ایک دوسرے کے اعتماد کو مجروح نہ کریں۔

یہاں پر بات صرف عورتوں کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں بعض مرد حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک رہتے ہوئے انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے، اور اس دوران ان کی بیویوں سے وفاداری کی امید رکھتے ہیں، لیکن خود اپنی زندگی میں بے وفائی کرتے ہیں۔

چند دن پہلے جب میں اپنے شوہر سے فون پر بات کر رہی تھی، جو بیرون ملک کام کرتے ہیں، تو میں نے ان کے روم میٹ کی آواز سنی جو بہت غصے سے کسی لڑکی سے بات کر رہا تھا۔ جب میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے، تو انہوں نے بتایا کہ ان کا روم میٹ ایک لڑکی سے کچھ سالوں سے بات کر رہا ہے، اس وقت ان دونوں کا جگڑا چل رہا تھا، حالانکہ اس شخص کے چار بچے اور بیوی ہے۔

میرے شوہر نے بتایا کہ وہ لڑکی کو ہر دو تین دن بعد چالیس پچاس ہزار پیمنٹ بھیجتا ہے جبکہ اپنی بیوی کو پچھلے دو مہینے سے ایک روپیہ نہیں بھیجا ہے۔ جب میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو کیا کہتے ہیں، تو جواب ملا کہ اس نے اپنی بیوی کو کہہ دیا ہے کہ میرا کام نہیں ہے۔

یہ صورتحال میرے لیے بہت حیرت انگیز اور افسوسناک تھی۔ میں سب لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اللہ نے جو رشتہ آپ کے لیے بنایا ہے، وہ بے حد خوبصورت ہے، اسی میں اپنی خوشی تلاش کریں۔ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے، مگر کوشش کریں کہ ایک دوسرے کو سمجھا سکے اور ہر حال میں خوش رہنا سیکھیں۔

آپ کی بیوی آپ کے گھر آپ کے نام پر بیٹھی ہے، چاہے وہ ظاہری طور پر خوبصورت نہ ہو، مگر اس کا دل اور اس کی مخلصی بے پناہ خوبصورت ہیں۔ عورتوں اور لڑکیوں کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے شوہر کو ہر حال میں سپورٹ کریں، لعن طعن سے اجتناب کریں اور اپنی خواہشات کے لئے غلط راستے یا باہر کے مردوں کی طرف نہ دیکھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری اور مخلصی کی بنیاد پر اس پاکیزہ رشتے کو مضبوط بنائیں اور نکاح جیسے مقدس عمل کو داغدار نہ ہونے دیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button