اگر یہ آپ کے بچے ہوتے تو؟ افغان بچوں پر تعلیم کے دروازے بند !!!

رانی عندلیب
پاکستان میں لاکھوں افغان پناہ گزین کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔ ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو یہاں پیدا ہوئے، یہی پرورش پائی اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ لیکن حالیہ حکومتی پالیسی کے تحت، اب ان افغان بچوں کو سرکاری اور نجی سکولوں میں داخلہ نہیں دیا جا رہا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کے خلاف حالیہ سخت پالیسی کے نتیجے میں، خاص طور پر ان کے بچوں کے تعلیمی مستقبل پر کاری ضرب لگی ہے۔ سکولوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نئے تعلیمی سیشن میں ان بچوں کو داخلہ نہ دیں، چاہے وہ ماضی میں انہی سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ کئی افغان بچے جو گزشتہ سالوں سے پاکستانی تعلیمی نظام کا حصہ تھے، اب سکول کے دروازوں سے مایوس لوٹنے پر مجبور ہیں۔
ان بچوں کا کیا قصور ہے جو نہ تو سیاست سمجھتے ہیں، نہ سرحدوں کی تقسیم، نہ اقامت کے قانونی پہلو؟ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ افغان ہیں، اور ان کے والدین نے جنگ، غربت یا دہشت گردی سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنا عارضی وطن بنایا۔ کیا یہ بچے بھی وہی بوجھ اٹھائیں جو ان کے والدین کے فیصلوں یا حالات کا نتیجہ تھا؟
تعلیم کو اگر ہم صرف شہریت سے جوڑ دیں، تو وہ ہزاروں سالوں سے قائم اس اخلاقی اصول کو توڑ دیں گے جو کہتا ہے کہ علم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر، بچوں کے حقوق کا عالمی معاہدہ اور دیگر بین الاقوامی قوانین اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، چاہے وہ کہیں سے بھی آیا ہو، کسی بھی ملک میں مقیم ہو۔
اگر یہ پابندی چند دنوں یا ہفتوں کی ہوتی تو شاید اتنا شدید اثر نہ ہوتا، مگر موجودہ حالات میں جب حکومت نے افغان پناہ گزینوں کو فوری طور پر واپسی کا حکم دیا ہے، مگر بہت سے لوگ واپس نہیں جا رہے، تو ایسے میں ان کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھنا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ نہ تو یہ بچے واپس افغانستان جا رہے ہیں، اور نہ ہی پاکستان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
ایک معصوم نسل جو پہلے ہی شناخت، پناہ اور تحفظ کے بحران کا شکار ہے، اب علم جیسے نور سے بھی محروم ہو رہی ہے۔ یہ بچے گلیوں میں کھیلیں گے، کام کریں گے، شاید کسی جرائم پیشہ نیٹ ورک کا حصہ بن جائیں، مگر وہ سکول نہیں جائیں گے اور یہ ہم سب کی اجتماعی ناکامی ہو گی۔
حکومت کے پاس دیگر راستے بھی موجود ہیں۔ اگر افغان بچوں کے والدین کی قانونی حیثیت مشکوک ہے یا ان کے پاس درست دستاویزات نہیں ہیں، تب بھی بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا ایک ظالمانہ فیصلہ ہے۔ اس کی بجائے حکومت سکولوں میں عارضی یا عبوری تعلیمی پالیسی نافذ کر سکتی ہے، جس میں ان بچوں کو داخلہ دیا جائے، اور ساتھ ہی والدین کو قانونی دستاویزات مکمل کرنے کی مہلت دی جائے۔
اسی طرح، این جی اوز، بین الاقوامی ادارے اور تعلیمی رضاکاروں کے اشتراک سے خصوصی تعلیمی مراکز قائم کیے جا سکتے ہیں جو صرف افغان بچوں کو تعلیم فراہم کریں – تاوقت یہ کہ ان کی مستقل رہائش یا واپسی کا کوئی واضح فیصلہ سامنے آ جائے۔
یہ وقت ہے جب ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہو گا: کیا ہم ایک انسانی معاشرے کے طور پر خود کو دیکھتے ہیں؟ کیا ہماری پالیسیز انسانوں کی فلاح کے لیے ہیں، یا صرف سیاسی مفادات اور سرکاری آرڈرز کی پیروی کے لیے؟ افغان بچے، چاہے مہاجر ہوں یا مہمان، سب سے پہلے بچے ہیں – اور ہر بچے کو تعلیم کا حق حاصل ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں معلومات، تعلیم اور تربیت ہی کسی قوم کی ترقی کا اصل ذریعہ ہیں۔ اگر ہم آج ان بچوں کو تعلیم سے محروم کرتے ہیں تو کل وہی بچے ہمارے لیے ایک چیلنج بن کر ابھریں گے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ان بچوں کو قلم دیں گے یا بے بسی؟ اسکول کا دروازہ کھولیں گے یا بند کریں گے؟ ان کو انسان سمجھیں گے یا صرف "غیر قانونی پناہ گزین”؟
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے ہے، اس کے ساتھ ادارے کا متفق ہونا لازم نہیں