
حمیرا علیم
دنیا جوں جوں ترقی کرتی جا رہی ہے ہر چیز ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے کیلنڈر، فون، گھڑی، الارم، ڈائری وغیرہ فون میں سمٹ آئے ہیں کاغذ پر موجود نقشے بھی گوگل میپ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ گوگل میپ سے لوگ انجان راستے تلاش کر کے منزل تک پہنچتے ہیں، فاصلوں کا اندازہ کرتے ہیں، ممالک اورسرحدوں کو دیکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ملک اچانک اس نقشے سے غائب ہو جائے تو یہ تشویشناک بات ہے۔ کئی برسوں سے یہ شکایت سامنے آتی رہی ہے کہ گوگل میپ پر "فلسطین” کو بطور ملک نہیں دکھایا جاتا بلکہ اس کی جگہ اسرائیل کو مکمل طور پر نقشے پر ظاہر کیا گیا ہے۔ مغربی کنارہ (West Bank) اور غزہ کی پٹی (Gaza Strip) کو اگرچہ الگ سے علاقوں کے طور پر دکھایا جاتا ہے مگر فلسطین کا کوئی باقاعدہ نام، جھنڈا یا حدبندی نقشے پر نظر نہیں آتی۔
گوگل کی انتظامیہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً یہ وضاحت دی جاتی رہی ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ممالک کے مطابق نقشے تیار کرتے ہیں۔ اور فلسطین چونکہ مکمل خود مختار ریاست کے طور پر اقوام متحدہ کا مکمل رکن نہیں ہے۔ اس لیے اسے ایک ملک کے طور پر نقشے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ یہ وضاحت دنیا کے 1۔2 ارب مسلمانوں کو مطمئین کرنے کے لیے کافی نہیں کیونکہ ہم اسرائیل کو فلسطین کی مقدس زمین پر قابض اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم سمجھتے ہیں ۔
فلسطین اسرائیل کہ طرح چند دہائیوں پہلے وجود میں آنے والا ملک نہیں بلکہ مکہ سے پہلے ہزاروں سال تک قبلہ اول کا شرف حاصل کرنے، انبیاء کے مسکن و مدفن ہونے کی وجہ سے یہ عیسائیت، یہودیت اور اسلام تینوں کے پیروکاروں کے لیے مقدس سرزمین رہی ہے۔
1948 تاریخ کا وہ تاریک سال ہے، جس میں اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی اور فلسطینیوں سے ان کے گھر، زمین، حقوق چھین کر انہیں مہاجر بنا دیا گیا۔ ذرا تصور کیجئے آپ شام کی چائے یا رات کے کھانے کے بعد اپنے لاؤنج میں بیٹھے اہل خانہ کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے ہوں یا خوش گپیوں میں مصروف ہوں۔ دروازے پر بیل ہو آپ دروازہ کھولیں، قابض فوجی آپ کو دھکیلتے ہوئے گھر میں داخل ہوں سب بڑوں بچوں کو گن پوائنٹ پر گھر سے باہر نکال کر حکم دیں کہ یہاں سے دفع ہو جاؤ، یہ عدالت کا حکم ہے کہ یہ گھر فلاں یہودی خاندان کے آباء کا تھا اس لیے انہیں دے دیا گیا۔
آپ دہائیاں دیتے رہ جائیں کہ یہ گھر صدیوں سے آپ کے خاندان کی ملکیت ہے۔ اگر آپ کو رہنے نہیں دیا جا رہا تو کم از کم چند اشیائے ضرورت ،کچھ رقم تو لینے دی جائے مگر آپ کو شوٹ کرنے کی دھمکی دے کر دروازہ بند کر لیا جائے تو آپ پر کیا گزرے گی۔ صرف تصور کرنے پر ہی خون کھول اٹھتا ہے۔ یہ وہ منظر ہے جو فلسطینی 1948 سے روز دیکھتے اور سہتے آ رے ہیں۔
2012 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو”ناظر ریاست” (observer state) کا درجہ دیا۔ اسے عالمی سطح پر جزوی طور پر ایک ریاست تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دنیا کے 130 سے زائد ممالک فلسطین کو ایک خود مختار ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ مگر امریکہ اور چند یورپی ممالک، جو اسرائیل کے مضبوط اتحادی ہیں اب تک اس کے وجود سے انکاری ہیں۔
دنیا کے بیشتر کاروباروں کی طرح بہت سی سوشل میڈیا ایپس بھی یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ لہذا ان کے لیے یہ بے حد آسان عمل ہے کہ وہ کسی بھی ادارے یا ملک کے فیصلوں پر اثر انداز ہوں اور انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں کیونکہ وہ معاشی طور پر مضبوط ہیں اور معیشت ہر ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ گوگل میپ کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں غیر جانبدارانہ رویہ رکھتے ہیں لیکن وہ بھی عالمی طاقتوں کے دباؤ کا شکار ہیں۔
فلسطین کا گوگل میپ سے غائب ہونا اور اس کی جگہ اسرائیل کا نام لکھنا محض ایک تکنیکی غلطی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ ہے۔ یہ مسلمانوں خصوصا فلسطینیوں کو مٹانے کی ایک سازش ہے۔ جب گوگل میپ کو استعمال کر کے کوئی شخص فلسطین کو تلاش کرنا چاہے گا اور اسے نقشے پر کہیں پائے گا ہی نہیں تو یقینا وہ یی سوچے گا کہ ایسا کوئی ملک اور قوم تو موجود ہی نہیں اس لیے اسرائیل حق پر ہے اور فلسطینی اسرائیل پر قابض ہیں انہیں وہاں سے نکالنا اپنے وطن کی حفاظت اسرائیلیوں کا حق ہے۔
دراصل یہ بھی گریٹیر اسرائیل بنانے کے منصوبے کا ایک حصہ ہے کہ نہ صرف زمین سے بلکہ ڈیجیٹلی بھی اس ملک و قوم کی شناخت مٹا دی جائے۔ بڑے بڑے نیوز چینلز، ادارے اور سوشل میڈیا اسرائیل کے حامی ہیں ماسوائے چند ایک کے کوئی حقائق پیش نہیں کر رہا اور فلسطینیوں کے احتجاج ان کے حقائق دنیا کے سامنے لانے کی کوششوں کو جھوٹ اور نفرت پھیلانے کا نام دے کر دنیا کو سچ دیکھنے سے روکا جا رہا ہے۔ ان کی ویڈیوز ڈیلیٹ کر دی جاتی ہیں۔
گوگل اور دیگر ٹیک جائنٹس پر اسرائیل کے اثر و رسوخ کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ گوگل کے دفاتر میں اسرائیلی لابی کے اثرات اور کئی بار فلسطینی حامی ملازمین کو ملازمت سے نکال دینا۔ ان باتوں کی گواہی دیتے ہیں کہ گوگل محض ایک ٹیک کمپنی نہیں بلکہ طاقت کے کھیل میں شریک ایک کھلاڑی ہے۔
یہ افواہ تو 2016 سے گردش میں تھی کہ فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا گیا ہے لیکن حقیقتا یہ چند دن پہلے ہی ہوا ہے۔ جس پر دنیا بھر میں ردعمل دیکھا گیا لوگوں نے ‘فری فلسطین ‘ ‘فلسطین از رئیل’ ہیش ٹیگ وائرل کیے۔ گوگل کے خلاف پٹیشنز سائن کی گئیں۔ اس کے متبادل ایپس کا استعمال کیا گیا جیسے کہ ‘ اوپن اسٹریٹ میپ’۔
چند مسلم ممالک نے اس کی مذمت کی جرات بھی کر ہی لی اور اس اقدام کو ڈیجیٹل نسل کشی کہا۔ آج تو یہ صرف ایک معمولی عمل لگ رہا ہے لیکن چند دہائیوں بعد فلسطین کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم بچپن سے مسئلہ کشمیر نصابی کتب میں پڑھتے آ رہے تھے، پی ٹی وی پر روزانہ کشمیری خبریں اور اس میں موجود جارحیت پر پروگرام دیکھتے تھے اور کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ سمجھتےتھے۔ چند سال پہلے اس باب کو کتب سے نکال دیا گیا اور ٹی وی سے اس کے متعلق پروگرامز بھی ختم کر دئیے گئے اور آج ہمارے بچے کشمیر کے متعلق کچھ نہیں جانتے اسے بھارت کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اس مسئلے کے لیے ہمیں نہ صرف اپنے اور عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں مسئلہ فلسطین اور تاریخ فلسطین پڑھانی ہو گی بلکہ سوشل میڈیا پر غیر جانبدار ایپس پر بھی اسے اجاگر کرنا ہو گا۔ ایسی ایپس کا استعمال کیا جائے جن پر یہودی قابض نہیں۔ اگر ہم جہاد بالسیف کی جرات نہیں رکھتے تو کم ازکم جہاد بالزبان و قلم تو کریں تاکہ دنیا اسرائیلیوں کے مظالم سے آگاہ ہو اور اس پر جنگ بندی کا دباو ڈالا جائے۔
اگر کسی مسلم حکمران میں اتنی غیرت ایمانی یا شرم باقی ہو کہ وہ اپنے بھائیوں کا ساتھ دے سکے تو عالمی عدالت میں ایسی کمپینیز کے خلاف مقدمہ کیا جائے جو فلسطین کی شناخت مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔ لیکن اس سب کے لیے سب سے اہم کام ہے کہ پہلے ہم خود متحد ہو، جو کہ ممکن نہیں۔
سب سے بڑی اسلامی ریاست جو ایٹمی طاقت بھی ہے اس کے صرف چار صوبے ہیں جو آپس میں پانی جیسے معمولی مسئلے پر بھی کتوں کی طرح جھگڑ رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ 57 ممالک اس مسئلے پر اتفاق رائے سے اکھٹے ہو کر کام کریں۔ یہ سب قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جن کی پیشگوئی نبیﷺ فرما چکے تھے۔ ہم آج تعداد میں تو 1۔2 ارب ہیں مگر اتحاد، غیرت ایمانی، موت کے خوف، دنیا کی محبت اور دین سےدوری کی وجہ سے خس و خاشاک سے بھی ہلکے اور ذلیل و خوار ہیں۔