بلاگزعوام کی آواز

سی ایس ایس: خوابوں کا امتحان یا نظام کا کھیل؟

حمیرا علیم

1806 میں برصغیر فتح کرنے والے برطانیہ نے یہاں کے انتظامی امور سنبھالنے کے لئے باقاعدہ ایڈمنسٹریشن کی ضرورت محسوس کی تو لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کالج قائم کیا۔ انڈین سول سروس کے امتحانات کی اصطلاح 1829میں پہلی بار استعمال کی گئی۔ اس کالج میں مفتوح علاقوں میں انتظامات سنبھالنے والوں کو تعلیم اور تربیت دی جاتی تھی۔

برطانیہ نے سول سروس کی اصطلاح چین سے حاصل کی تھی۔ جہاں سوئی خاندان (581-618) اور اس کے بعد آنے والی تانگ ڈائی ناسٹی (618-907) کے زمانے میں سول سروس کا اہتمام ہوتا تھا۔ اور اس امتحان کو پاس کرنے والوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا۔

1853میں چانسلر آف ایکس چیکر ولیم گیلڈ سٹون نے سر سٹیفورڈ نارتھ کوٹ اور چارلس ٹری ویلیان کو سول سروس کو منظم بنانے اور چلانے کی ذمہ داری سونپی۔ اس سروس کے لیے امیدواروں کا انتخاب مقابلے کے امتحان کے ذریعے کیا جاتا۔

اس امتحان کو پاس کرنے کے لئے امیداواروں کے پاس وسیع جنرل نالج ہونی چاہیئے تاکہ انٹر ڈیپارٹمنٹل ٹرانسفرز کو ممکن بنایا جا سکے۔

سی ایس ایس کسی مضمون یا شعبے کے بارے میں امیدوار کی لیاقت پرکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ لیاقت کے ساتھ ساتھ امیدوار کی انگریزی دانی بھی پرکھی جاتی ہے۔

یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کا انگریزی زبان پر عبور کتنا ہے۔ حالانکہ کسی کے انگریزی زبان پر عبور کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ لائق یا بہترین منتظم ہو گا۔ اگر کسی کا مضمون معاشیات، تاریخ، سوشل سائنسز یا کوئی سائنس ہے تو کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ انگریزی کا بھی ماہر ہو؟

انگریزی نہ آنے کی وجہ سے کئی لائق، ذہین امیدوار اس امتحان میں پاس نہیں ہو سکتے۔ اگر انگریزی میں مہارت اتنی ہی ضروری ہے تو دوران تربیت اسے بطور زبان پڑھایا جا سکتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں میڈیکل کی تعلیم تک اپنی زبان میں دی جا رہی ہے لیکن ہم آج بھی اردو کی بجائے انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دئیے ہوئے ہیں۔حالانکہ قیام پاکستان کے وقت ہی اردو سرکاری زبان قرار دے دی گئی تھی۔

بیوروکریسی کے لیے اردو میں افسر شاہی یا نوکر شاہی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جب سول اسٹیبلشمنٹ کا نام لیا جاتا ہے تو اس سے بھی مراد یہی بیوروکریسی ہوتا ہے۔ کسی علاقے کے تمام انتظامی معاملات بیوروکریسی کے ہی ہاتھ میں ہوتے ہیں۔بلکہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں کو چلانے والے بھی یہی لوگ ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سی ایس ایس/ پی ایم ایس مقابلے کے امتحانات کا مقصد وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ملک کی سول سروسز کے لیے امیدواروں کو بھرتی کرنا ہے۔ امتحان تحریری اور زبانی ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ طبی اور نفسیاتی جائزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

سی ایس ایس کا امتحان سال میں ایک بار فروری میں ہوتا ہے۔ سی ایس ایس کے لیے پاکستانی شہری ہونا ضروری ہے ۔ تعلیمی قابلیت بیچلر یا اس کے مساوی ہونی چاہیئے۔ اور عمر 21 سے 30 سال کے درمیان ہونی چاہیئے۔

ایک امیدوار سی ایس ایس امتحان میں تین بار سے زیادہ مرتبہ نہیں بیٹھ سکتا۔ امتحان میں 12 پیپرز ہوتے ہیں جن میں 6 لازمی اور 6 اختیاری پیپرز ہوتے ہیں۔ ہر ایک میں 100 نمبر ہوتے ہیں۔

لازمی پرچوں میں انگریزی مضمون، انگلش گرائمر اینڈ کمپوزیشن، جنرل سائنس اینڈ ایبلٹی، کرنٹ افیئرز، پاکستان افیئرز، اسلامک اسٹڈیز، اور بڑے مذاہب کا تقابلی مطالعہ شامل ہیں۔ اختیاری پرچوں کا انتخاب گروپوں میں تقسیم مضامین کی فہرست سے کیا جاتا ہے، جیسے کہ معاشیات، تاریخ، قانون، فلسفہ وغیرہ۔

امیدواروں کو زبانی امتحان کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے تمام لازمی پرچوں اور اختیاری پرچوں میں سے کم از کم چار کو پاس کرنا ہوتا ہے ۔ زبانی امتحان میں 300 نمبر ہوتے ہیں۔

اس میں امیدواروں کی شخصیت، کمیونیکیشن ، عمومی علم، اور سول سروسز کے لیے موزوں ہونے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ حتمی میرٹ لسٹ تحریری اور زبانی ٹیسٹ کے مجموعی نمبروں کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔

پاکستانی حکومت سینٹرل سوپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحانی نظام کو ختم کرکے بڑی اصلاحات کرنے پر غور کر رہی ہے۔ جس کے تحت کلسٹر بیسڈ ماڈل متعارف کروایا جائے گا۔ اس تبدیلی کا مقصد ماہرین کو متعلقہ عہدوں پر تعینات کرنا ہے تاکہ بیوروکریسی کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ کیونکہ پہلے ہر امیدوار کو بجائے اپنے مضمون کے سب اختیاری و لازمی مضامین کے پیپرز دینے ہوتے تھے مگر اب اس کے مضمون کے مطابق اس سے امتحان لے کر اس کی متعلقہ فیلڈ میں تقرری کی جائے گی۔

ایک ڈاکٹر ریونیو سروس میں تعینات ہو سکتا ہے، آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والا امیدوار یا پھر بیرون ملک ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے انجینئر کو مقرر کیا جا سکتا ہے حالانکہ یہ ذمہ داریاں اُن کی تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

نئے نظام کے تحت ہر سروس گروپ کی اپنی مخصوص قابلیت اور مسابقتی امتحان ہوں گے۔ ملکی سول سروس میں عمومی افسران (Generalists) کی جگہ ماہرین (Specialists) کو فروغ دینے کےلئے جنرلائزڈ سی ایس ایس فریم ورک کی جگہ کلسٹرز پر مبنی امتحانی نظام لایا جائے۔

اس نظام میں امیدواروں کی مہارت ان کے تفویض کردہ عہدوں کے مطابق ہوگی۔ اس تبدیلی سے موجودہ امیدواروں پر پڑنے والے اثرات، فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کی نئے امتحانات کے نفاذ کی صلاحیت، اور قائم شدہ سرپرستی کے نظام میں خلل ڈالنے کے سیاسی مضمرات جیسے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔

کچھ عشروں پہلے تک یہ امتحان میرٹ پر انتخاب کے لیے مشہور تھا مگر اب اس میں بھی سیاسی فیورٹ اور اقربا پروری در کر آئی ہیں۔جو امیدوار سخت محنت کے بعد یہ امتحان پاس کر لیتے ہیں انہیں انٹرویو میں فیل کر کے اپنے رشتے داروں یا پسندیدہ امیدواران کی تقرری کر دی جاتی ہے۔

ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جواس نظام سے کرپشن کا خاتمہ کر سکیں۔ تاکہ لائق اور قابل امیدواروں کا تقرر ممکن ہو سکے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button