عیدی، مہندی اور عید کارڈز: ماضی کی عیدیں یاد آتی ہیں؟

ایزل خان
ماضی کی عیدوں کا تجربہ وہ لوگ بتا سکتے ہیں جنہوں نے روایتی طریقوں سے عید مناتے ہیں، مثلاً ماضی میں بچے صبح سویرے نئے کپڑے پہن کر عیدگاہوں کی طرف روانہ ہوتے تھے، جہاں سب لوگ عید کی نماز پڑھنے کے بعد ایک دوسرے کو گلے ملتے اور مبارکباد دیتے تھے۔ عید کے موقع پر گھروں میں خصوصی پکوان تیار کیے جاتے تھے، جیسے کہ سویّاں اور بریانی، اور خاندان کے افراد اور دوست احباب ایک دوسرے کے گھروں کا دورہ کرکے ملتے تھے۔
آج کل کی عید میں ٹیکنالوجی کا اثر واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مبارکباد دینے کی روایت عام ہوچکی ہے اور عید کے کپڑوں، زیورات، اور دیگر اشیاء کی خریداری آن لائن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زندگی میں وقت کی قلت کی وجہ سے لوگ اکثر مختصر ملاقاتوں کو ترجیح دیتے ہیں، اور کچھ نے ہوٹلوں میں کھانے کی تقریب کو اختیار کر لیا ہے۔
ان تبدیلیوں کے باوجود، عید کی خوشیاں ویسی ہی ہیں، لوگ اب بھی دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے طریقہ کار میں تبدیلی آگئی ہو۔
ہمارے بچپن میں ہمارے خاندان اور دیگر لوگوں کے درمیان یہ ایک خوبصورت رواج تھا کہ ایک وقت کا کھانا ایک گھر میں تیار کیا جاتا تھا اور اس موقع پر تمام خاندان والے، کزنز اور فیمیلیز وہاں جمع ہوتے تھے۔ سب مل کر وقت گزارتے، خوشیاں بانٹتے اور کھانے کا لطف اٹھاتے تھے۔ اگلے وقت کا کھانا کسی دوسرے گھر میں تیار ہوتا تھا، جہاں پھر سب لوگ مہمان بن کر اکٹھے ہو جاتے تھے۔
یہ رواج ایک طرح سے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر رشتوں میں محبت بڑھانے کا زبردست ذریعہ تھا۔ لیکن اب یہ خوبصورت روایت بیشتر جگہوں پر ختم ہو چکی ہے۔ آج کل لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر عید ویش کر دیتے ہیں، تصاویر شئیر کر دیتے ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے۔ اس بدلاؤ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بجائے فاصلے پیدا کر دیے ہیں۔
وہ دن بھی کیا خوبصورت تھے جب ہم سب چھوٹے تھے اور عید کے موقع پر زندگی کی خوشیوں کو بھرپور طریقے سے منایا کرتے تھے۔ میری کزنز خاص جوش و خروش سے رنگ برنگے عید کارڈز خریدا کرتی تھیں۔ یہ کارڈز اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو تحفے کے طور پر بھیجاتے تھے، جو کہ عیدی کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کچھ تحائف بھی دیے جاتے تھے، جو ہمیشہ کے لئے ایک یادگار بن جاتی تھی۔ آج کل جیسے جیسے زمانہ جدید ہو رہا ہے، عید کی مبارکبادیں واٹس ایپ اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے ہی دی جاتی ہیں، جس میں وہ محبت اور گرمجوشی شاید کم ہو گئی ہے جو کارڈ اور ذاتی ملاقات میں ہوتی تھی۔
ہم سب بچے، عیدی ملنے کے شوق میں اُس گھر کا رخ سب سے پہلے کرتے تھے جہاں سے زیادہ عیدی کی امید ہوتی تھی۔ جس گھر سے زیادہ رقم ملتی، وہاں جانے میں سب سے زیادہ دلچسپی ہوتی۔ ان پیسوں کا استعمال بڑے اہتمام سے کیا جاتا تھا، سب کزنز مل کر جھولے یا دیگر دلچسپ سرگرمیوں کا حصہ بنتے تھے۔ کبھی کبھار کچھ پیسے جمع کر کے مزیدار آئسکریم کھاتے یا پارٹی کرتے تھے۔
لیکن آج کل کے بچے چند سو یا ہزار کی رقم کے ساتھ بھی صبر نہیں کرتے، ان کی خواہشات اور ضروریات نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے، جسے سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے یہ ہمارا معمول ہوا کرتی تھی کہ عید کے تیسرے دن ہم کہیں گھومنے جاتے تھے، کبھی نانی کے گھر کا رخ کرتے تھے جہاں سب مل کر خوشی بانٹتے تھے، یا پھر کسی قریبی پارک میں جاتے تھے جہاں مختلف تفریحی سرگرمیاں کرتے تھے۔ وہاں وقت کا کوئی شمار نہیں ہوتا تھا، بس سارے دوست احباب اور خاندان والے مل کر خوب تفریح کرتے تھے۔ لیکن آج کل مصروفیات کی وجہ سے، چاہ کر بھی نانی کے گھر جانا یا خاندان کے ساتھ پارک جانے جیسی چھوٹی خوشیوں کا لطف اٹھانا مشکل ہوگیا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے وقت کی کمی نے ہماری خوشیوں کے درمیان حائل ہو گیا ہو۔یہ بڑے خوبصورت لمحات تھے جب چاند رات کے مخصوص راتوں میں ہم سب مہندی لگاتے تھے۔ ان دنوں ہم کافی چھوٹے تھے، اور میری کزن ہمارے ہاتھوں پر مہندی کے نقش و نگار بناتی تھی۔ ہم سب بڑے جوش و خروش کے ساتھ گھنٹوں اس کے خوبصورت کام کا انتظار کرتے تھے۔ اگر خدانخواستہ مہندی کا رنگ اچھا نہ آتا، تو میں دل گرفتہ ہو کر رونے لگتی تھی۔
اب، جب میں ان دنوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے اب مہندی لگانے کا دل نہیں کرتا۔ بس کبھی کبھار ان لمحوں کو یاد کر کے اپنی بے وقوفیوں پر ہنسی آ جاتی ہے کہ کتنے معصوم اور بے خود ہوتے تھے ہم۔میں یہ سمجھتی ہوں کہ موجودہ دور میں ٹیکنالوجی نے بہت سی تبدیلیاں کی ہیں؛ جدت نے لوگوں کے رہنے اور جینے کے انداز کو یکسر بدل دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، آج بھی بہت سے لوگ تہواروں جیسے عید کی خوشیوں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ اس موقع کو انجوائے کرتے ہیں، اپنے رشتہ داروں اور فیملیز کو وقت دیتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسی روایات بھی ہیں جو وقت کے ساتھ معدوم ہو رہی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں۔ اس دوران، خود بھی خوش رہنے کی کوشش کریں اور دوسروں کی خوشیوں کی وجہ بننے کا عزم کریں۔ اپنے آس پاس کے غریب لوگوں کا بھی خاص خیال رکھیں۔ اور جو لوگ آپ سے ناراض ہیں یا جن سے آپ ناراض ہیں، کوشش کریں کہ انہیں معاف کر دیں۔ اس طرح نہ صرف ہماری زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ معاشرے میں بھی محبت اور بھائی چارگی کی فضا فروغ پائے گی۔