بلاگزعوام کی آواز

کیا آپ نے صدقہ فطر ادا کیا؟

صدقہ فطر صرف محتاجوں کی مدد کے لیے نہیں، بلکہ یہ روزوں کی طہارت اور تکمیل کے لیے بھی ضروری ہے

صدف سید

رمضان المبارک کے اختتام پر جب چاند رات کا اعلان ہوتا ہے، ہر مسلمان کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ عید کی تیاریوں میں بازاروں کی چمک دمک، نئے کپڑوں کی خریداری، اور مہندی کی خوشبو ہر طرف بکھر جاتی ہے۔ مگر اس خوشی کے رنگ میں اسلام ہمیں ایک اہم فریضہ یاد دلاتا ہے۔ "صدقہ فطر، یا فطرانہ” جو صرف ایک مالی ادائیگی نہیں بلکہ عید کی حقیقی روح کو زندہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ صدقہ فطر صرف محتاجوں کی مدد کے لیے نہیں، بلکہ یہ روزوں کی طہارت اور تکمیل کے لیے بھی ضروری ہے.

جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کو روزے دار کے لیے لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ اور مساکین کے لئے کھانے کا انتظام قرار دیا ہے۔” (سنن ابی داؤد، حدیث: 1609)۔ گویا صدقہ فطر کا اصل مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان بھوکا نہ رہے اور ہر کوئی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکے۔

صدقہ فطر اسلام کا ایک لازمی حکم ہے جو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کو ہر آزاد اور غلام، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔” (بخاری، حدیث: 1503)۔ یعنی یہ ہر اس شخص پر لازم ہے جو زکوٰۃ کے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مال رکھتا ہو۔ اگر کسی کے پاس بنیادی ضروریات کے علاوہ اتنی رقم یا مال موجود ہو جو صدقہ فطر ادا کر سکے، تو اس پر یہ واجب ہو جاتا ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار کیا ہونی چاہیئے؟

اس بارے میں اسلامی علما اور مفتیان کرام واضح رہنمائی دیتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کے مطابق: "صدقہ فطر کی مقدار نبی کریم ﷺ کے دور میں ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین کلو) کھجور یا جو تھی۔ آج کے زمانے میں اس کا حساب مختلف اجناس کے لحاظ سے نکالا جا سکتا ہے، جیسے گندم، آٹا، کھجور، یا اس کی قیمت۔” چنانچہ مختلف فقہی مکاتبِ فکر کے مطابق آج کل صدقۂ فطر کی رقم گندم، جو، کھجور، یا ان کے مساوی نقد رقم کی صورت میں دی جا سکتی ہے، اور ہر سال یہ مقدار مفتیان کرام جاری کرتے ہیں۔

2025 میں پاکستان میں صدقہ فطر (فطرانہ) کی مقدار مختلف اجناس کی قیمتوں کے مطابق طے کی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، صدقۂ فطر کی مقدار گندم، جو، کھجور، یا کشمش کی مقررہ مقدار یا اس کی قیمت کے برابر ادا کی جاتی ہے۔ اس سال کے حساب سے تفصیلات درج ذیل ہیں:

گندم: پونے دو کلو گرام کے حساب سے فی کس 250 روپے۔

جو: ساڑھے تین کلو گرام کے حساب سے فی کس 700 روپے۔

کھجور: ساڑھے تین کلو گرام کے حساب سے فی کس 2,400 روپے۔

کشمش: ساڑھے تین کلو گرام کے حساب سے فی کس 6,000 روپے۔

یہ مقدار مختلف اسلامی اداروں اور مفتیانِ کرام کی جانب سے مقرر کی گئی ہے۔ دارالعلوم کراچی، جامعہ دارالافتاء، اور مرکز اہل سنت کی جانب سے اعلان کردہ تفصیلات کے مطابق، صدقۂ فطر کے لیے ان اجناس کی قیمتیں مارکیٹ کے مطابق متعین کی گئی ہیں۔

اسی طرح، جامعہ بنوریہ اور مدرسہ نعیمیہ کی جانب سے بھی صدقہ فطر کی مقدار کے بارے میں رہنمائی دی گئی ہے، جس میں مستحب قرار دیا گیا ہے کہ مالی حیثیت کے مطابق اعلیٰ معیار کی جنس یا اس کی قیمت کے برابر فطرانہ ادا کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مستحقین مستفید ہو سکیں۔

فقہ جعفریہ کے مطابق، اس سال صدقۂ فطر کی کم از کم رقم 500 روپے فی کس مقرر کی گئی ہے، جیسا کہ جامعہ المصطفیٰ اور مرکزی جامع مسجد امامیہ کے علماء نے اعلان کیا ہے۔

صدقۂ فطر کی ادائیگی کا بہترین وقت عید الفطر کی نماز سے پہلے ہے، تاکہ ضرورت مند افراد اس سے اپنی ضروریات پوری کر سکیں اور عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جو شخص عید کی نماز سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرے، وہ مقبول صدقہ ہے، اور جو نماز کے بعد دے، وہ عام صدقہ ہے۔” (سنن ابی داؤد، حدیث: 1605)۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صدقہ فطر وقت پر ادا کرنا نہایت ضروری ہے، اور تاخیر کرنے سے اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

اسلام میں صدقہ فطر کے مستحقین وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: "صدقے صرف فقراء، مساکین، صدقات کے عاملین، جن کے دل جیتنے مقصود ہوں، غلاموں کی آزادی، قرض داروں کی مدد، اللہ کی راہ، اور مسافروں کے لیے ہیں۔” (سورۃ التوبہ: 60)۔

اس کا مطلب ہے کہ فطرانہ ان لوگوں کو دیا جانا چاہیئے جو واقعی ضرورت مند ہوں، جیسے یتیم، بیوائیں، غریب خاندان، معذور افراد، یا وہ لوگ جو روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہوں۔

ہم میں سے اکثر لوگ صدقہ فطر کی ادائیگی میں تاخیر کر دیتے ہیں، یا اس کا صحیح مصرف نہیں دیکھتے۔ کچھ لوگ عید کے دن کسی فقیر کو چند سکے دے کر سمجھتے ہیں کہ ان کا فریضہ ادا ہو گیا، حالانکہ فطرانے کی اصل روح کسی مستحق کو وہ رقم دینا ہے جس سے وہ عید کے دن اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکے۔

اگر ہر مسلمان ایمانداری سے صدقہ فطر ادا کرے تو معاشرے میں بہت سی غربت ختم ہو سکتی ہے۔ عید کی صبح کوئی بھی بھوکا نہ ہو، کوئی بھی اداس نہ رہے۔ یہ صرف ایک مالی ادائیگی نہیں بلکہ ایک اجتماعی نظام ہے جو اسلام نے ترتیب دیا ہے تاکہ خوشیاں سب میں برابر تقسیم ہوں۔

عید صرف نئے کپڑوں، اچھے کھانوں، اور تفریح کا نام نہیں بلکہ اصل عید وہ ہے جس میں ہر کوئی خوش ہو۔ صدقہ فطر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہماری خوشی میں وہ لوگ بھی شریک ہوں جن کے پاس کچھ نہیں۔ اگر ہم اس عبادت کو اس کی اصل روح کے مطابق ادا کریں، تو ہماری عید صرف ایک رسمی تہوار نہیں بلکہ حقیقی خوشی کا پیغام بن جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button