بلاگزعوام کی آواز

مردوں کی "اسلامی بصیرت” کا ایک عجب منظر نامہ، چار شادیاں تو ہمارا حق ہے

' میں فی الحال دوسری شادی نہیں کر رہا'

حمیراعلیم

ماہ رمضان میں کئی ٹی وی چینلز پر سحر و افطار ٹرانسمیشنز نشر کی جاتی ہیں۔ جن میں ایکٹرز دین پر گفتگو کرتے ہیں۔ ویسے تو دین علماء سے ہی سیکھنا چاہیے مگر کیا کیجئے ہمارے ٹی وی چینلز نے کچھ سالوں سے یہ ٹرینڈ چلا دیا ہے کہ سارا سال حرام کام کرنے والے ایکٹرز رمضان میں شلوار قیمض پہن کر، دوپٹہ اوڑھ کر  بہت عاجزانہ شکل بنا کر مخلوط محافل میں دینی علماء بنا کر عوام کو خود ساختہ دین سکھانے بٹھا دیتے ہیں۔ جو لوگوں کو وہ اسلام بتاتے ہیں جو ان کی خواہشات کے موافق ہو۔ لہذا بجائے اصل اسلام کے عجیب و غریب دین معاشرے میں رائج ہوتا جا رہا ہے۔

ایسے ہی ایک پروگرام میں، دانش تیمور نامی ایکٹر جو خود تو اتنے کامیاب ایکٹر نہیں ہیں مگر ان کی بیگم عائزہ خان جو کہ ایک کامیاب ایکٹریس اور ماڈل ہیں، موجود تھے، جس میں دانش تیمور نے اپنے اسلامی علم کا مظاہرہ فرمایا اور کہا اللہ نے مجھے چار شادیوں کی اجازت دی ہے یہ الگ بات ہے کہ میں ‘ فی الحال’ کر نہیں رہا اور اس اجازت کو کوئی چھین  نہیں کر سکتا۔

یہ بیان بظاہر ایک عام سا جملہ محسوس ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے ہماری معاشرتی سوچ اور مردوں کی "اسلامی بصیرت” کا ایک عجب منظر نامہ ہے۔ ہمارے ہاں اکثر پاکستانی مردوں کا اسلام اس آیت کے آدھے حصے سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتا ہے۔ بہت کم ایسے ہونگے جنہیں اس آیت کا شان نزول اور آخری حصہ عدل کرو بھی معلوم ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے کے مرد عدل کے اس پیمانے پر پورا اترتے ہیں؟ کیا وہ اپنی پہلی بیوی کے تمام حقوق بخوبی ادا کرتے ہیں؟ کیا وہ بچوں کی پرورش، والدین کی خدمت اور بیوی کی عزت و محبت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے؟ اگر ان تمام معاملات میں وہ بہترین شوہر اور باپ ثابت ہوتے ہیں، تب ہی وہ اگلے قدم کا سوچ سکتے ہیں۔

مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر دوسری شادی کے پیچھے صرف خواہش نفس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مرد بیویوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے۔ دانش تیمور عدل تو یہ کیا فرمائیں گے جن کا سلوک ہی اپنی بیوی کے ساتھ یہ ہے کہ ایک انٹرنیشنل ٹی وی چینل پر بیٹھ کر بیگم کی تذلیل کر رہے ہیں۔ حق آپ کا بالکل ہے، کیجئے دو نہیں چار کیجئے، مگر یہ حق بالکل حاصل نہیں کہ  اس قدر تکبر کے ساتھ کروڑوں کے سامنے بیوی کی تذلیل کریں ۔

دانش تیمور کے ‘فی الحال "سے آثار یہی لگتے ہیں کہ موصوف دوسری شادی کا ارادہ کر چکے ہیں اور جلد ہی دھماکا کرنے والے ہیں۔ ان کی اس بات سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ڈاکٹر نبیہہ کا یہ بیان غلط ہے کہ عورت اگر  میڈیا پر سج سنور کر ناچ سکتی ہے تو  شوہر کے لیے طوائف بن جانے میں کیا حرج ہے۔

عائزہ خان نہ صرف حسین، تعلیم یافتہ بلکہ بہترین ماں، بیوی، ماڈل، ایکٹریس اور اپنے شوہر سے زیادہ کماؤ بھی ہیں۔ اگر ان کے شوہر کا یہ حال ہے تو گھریلو خواتین بے چاری کس کھیت کی مولی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جو مرد اپنی کامیاب، خوبصورت، باشعور اور کماؤ بیوی کے ہوتے ہوئے بھی مطمئن نہیں، وہ بھلا کسی اور عورت سے کیا وفا نبھائے گا؟ اور اگر بیوی عائزہ خان جیسی ہو تب بھی جس مرد میں وفا، حیا، پاکیزگی اور اللہ کا ڈر نہیں بلکہ آوارگی سے وہ باہر منہ ضرور مارتا ہے۔

ایسے مردوں کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ چار شادیوں کی اجازت ہے۔ چار شادیوں کے جواز پر تو لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں، مگر سورہ النور کی وہ آیات کبھی نہیں پڑھتے جن میں اللہ نے بے حیائی اور فحاشی، حرام کاموں اور چیزوں سے بچنے تلقین کی ہے۔ انہیں نبی کریم ﷺ کے وہ ارشادات یاد نہیں آتے جن میں عورت کے احترام، اس کے حقوق، اور بہترین شوہر بننے کی ہدایات موجود ہیں۔

دانش تیمور جیسے مرد ساری زندگی نامحرم کے ساتھ اختلاط، شوبز میں کام، مخلوط محافل، ناچ گانےجھوٹ، شراب نوشی، نشہ کرنا جیسے حرام کاموں میں گزار دیتے ہیں مگر انہیں معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ اللہ نے ان سب کی اجازت ہرگز ہرگز نہیں دی پھر میں یہ سب کیسے کر سکتا ہوں؟

عائزہ خان جیسی کامیاب عورت کے شوہر کا دوسری شادی کا عندیہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ مرد کو عورت کے کردار ، شکل، تعلیم، وفا، خلوص ، تابعداری سے زیادہ اپنی ذاتی خواہشات عزیز ہوتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر شوہر دوسری شادی کر رہا ہے تو یقنیا بیوی میں ہی کچھ کمی یا مسئلہ ہو گا۔ کوئی بھی مرد کے کردار اور نیت پر سوال نہیں اٹھاتا کہ کیا مرد کسی بیوہ، یتیم، مطلقہ اور اس کے بچوں کی کفالت کرنا چاہتا ہے یا محض خواہش نفس کی تسکین۔ اگر واقعی کسی مجبوری کے تحت شادی کر رہا ہے تو کیا پہلی بیوی کے ساتھ انصاف کر رہا ہے یا نہیں۔ عموما  ایسے کیسیز میں پہلی کو طلاق دے دی جاتی ہے یا بچوں سمیت لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے اور اگر یہ صرف خواہش کی تکمیل ہے تو یہ دینی و دنیاوی لحاظ سے قابل مذمت عمل ہے۔

عورت کو ہر حال میں صبر و برداشت کا درس دینے کی بجائے مرد کو اپنے وعدے، ذمہداریاں نبھانے، نگاہ نیچی رکھنے، عورتوں کے ساتھ سلوک، ان کا احترام اور  اپنی عصمت کی حفاظت بھی سکھانا ہو گی نہ کہ اسے یہ باور کرایا جائے کہ وہ مرد ہے اس لیے اسے سب جائز ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی کا اسلام یاد رکھتے ہیں باقی بھول جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں مگر حقوق پورے چاہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ طلاق اور عورت کا استحصال ہیں. اگر چار شادیوں کو بنیاد بنانا ہے تو عورت کے حقوق، عدل، تقوی کو بھی اپنانا ہو گا۔ کیونکہ دین خواہشات کی تکمیل کا نام نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس میں عورت اور مرد دونوں کے حقوق برابر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button