بھوک، بیماری یا مشکل—کیا ہمارے پڑوسی ہم پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟
اچھا پڑوسی، خوشحال معاشرہ! کیا ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟

نازیہ
کسی بھی معاشرے میں اگر پڑوسی اتفاق و اتحاد سے رہے، میل جول رکھے اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو یقین مانیں یہی پڑوسی کسی اچھے رشتہ دار اور بڑی نعمت سے کم نہیں۔ ایسا کرنے زندگی گزارنے میں انتہائی آسانیاں پیدا ہوتی ہے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے، اس لیے تو اللہ تعالیٰ نے جب تمام رشتہ داروں کے حقوق وضع کئے تو ساتھ میں پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق وضع کئے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم پر رشتہ داروں سے زیادہ پڑوسیوں کے حقوق ہوتے ہیں، اس بات کی آسان وضاحت کرتی چلوں کہ جب بھی گلی محلے میں کوئی فوتگی ہوتی ہے یا کوئی اور غمی ہوتی ہے تو سب سے پہلے پڑوسی ہی کام آتے ہیں جب تک رشتہ داروں کو خبر ملتی ہے تو پڑوسی پہلے کام آ چکے ہوتے ہیں تو پھر ان کے حقوق زیادہ کیوں نا ہو؟
اسلام میں پڑوسیوں کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پڑوسیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کی قسم تم میں سے وہ مومن نہیں ہو سکتا جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ اگر ہم اس ارشاد پر عمل کریں تو ہمارا معاشرہ بہت جلد امن کا گہوارہ بن سکتا ہے کیونکہ معاشرہ ہم سے اور آس پاس کے پڑوس سے ہے مگر آج کا انسان اس قدر مصروف اور خود غرض ہو چکا ہے کہ اس کو کسی کا خیال ہی نہیں۔ بلکہ وہ لوگ جن کے شر سے ان کے پڑوسی محفوظ نہ رہے تو ان کا ایمان کامل ہی نہیں کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی گویا کہ اس نے مجھے تکلیف دی۔ اس ارشاد سے بھی پڑوسیوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یاد رکھیں اگر پڑوس میں کوئی بھی شخص بھوکا سوئے تو اس کا ہم سے پوچھا جائیگا۔ جب بھی سالن پکائیں تو زیادہ پکا لے اور پڑوس میں بانٹے، ایسا کرنے سے آپ کو ثواب بھی ملے گا اور پڑوس میں اتفاق بھی رہے گا۔ پڑوس میں ایسے بھی لوگ موجود ہوتے ہیں جو انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر میں بچے پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں مگر اپنی عزت و وقار کی خاطر وہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہونے دیتے ہیں کہ وہ غریب ہے مگر یہ میری، آپ کی اور ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر، اگر روزانہ نہ سہی تو ہر دوسرے تیسرے دن ان کے گھر کھانا بھیجوائے اور اس کے علاوہ اور بھی کوئی مالی امداد کر سکتے ہیں تو کریں کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے ان پڑوسیوں ہی کا پوچھا جائے گا۔ ایسا کرنے سے ہم اپنے پڑوسی پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ ہم اپنے لیے ہی ثواب کما رہے ہوتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ ہے اکثر صاحب استطاعت لوگ راشن تقسیم کر رہے ہوتے ہیں تو تقسیم کرتے وقت سب سے پہلے اپنے آس پاس کے پڑوس میں دیکھیے پھر اس کے بعد آگے بڑھے کیونکہ اگر اصل میں ثواب کمانا ہو تو اپنے پڑوس کا خیال رکھنا ہوگا۔
عید آنے والی ہے اگر آپ کے پڑوس میں یتیم اور غریب بچے ہیں تو ان کے لیے عید کے کپڑوں کا بندوبست کریں پھر اپنا ثواب اور سکون دیکھیں۔ یقین مانیں جب یہ بچے عید پر اور بچوں کو نئے کپڑوں میں دیکھتے ہیں اور خود کو پرانے کپڑوں میں تو یہ بچے انتہائی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور دکھی رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر والوں بالخصوص ان کے والدین کو انتہائی تکلیف پہنچتی ہے۔
اس کے علاوہ سب سے اہم بات کہ اگر پڑوس میں کوئی بیمار ہے تو اس کی بیمار پرسی کریں کیونکہ اگر پڑوس میں دشمن ہی بیمار کیوں نہ ہو اس کی بھی عیادت کرنی ضروری ہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دشمنوں کی بھی بیمار پرسی کی ہے تو ہم تو ان کے امتی ہے اس لیے ہمیں بھی اس کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے۔
اس کے علاوہ اگر پڑوس میں کوئی فوت ہو جائے تو ان کے جنازے میں شرکت کرنی چاہیئے اور اگر کوئی پڑوسی قرضدار ہو تو اس کا قرض اتارنا چاہیئے تاکہ اس کی مشکل آسان ہو۔
بحیثیت پڑوسی اگر ہم صحیح معنوں میں ایک دوسرے کی مدد کریں، ایک دوسرے کا پوچھیں تو یہ معاشرہ امن بھائی چارے، سکون اور محبت کا نمونہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اتنے پیار و محبت کے ساتھ رہنا چاہیئے کہ ہمارے پڑوسی ہمیں اپنے رشتہ داروں سے کم نہ سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت دیں۔