بلاگزعوام کی آواز

نظر انسان کو قبر تک اور اونٹ کو ہانڈی تک پہنچا دیتی ہے، حقیقت یا محض قیاس آرائی ؟

ہم اکثر اپنے معاشرے میں ایسے بچوں اور بچیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو انتہائی ذہین ہوتے ہیں، اپنی خوبصورتی سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں، یا اپنی فیملی میں منفرد اور خصوصی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بدقسمتی سے بد نظر کا شکار ہو کر کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا ناگہانی طور پر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

ایزل خان

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی نظر میں ایک خاص تاثیر رکھی ہے، جو مختلف جذبات کی بنا پر دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کچھ لوگ دوسروں کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں، تو کچھ لوگ ان کو حاسد آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ بعض لوگ تعجب کی نظروں سے گھورتے ہیں۔ جب کوئی بھی شخص کسی دوسرے کو کسی بھی نظر سے دیکھتا ہے، تو وہ نظر کسی نہ کسی طرح، مثبت یا منفی، دوسرے شخص پر اثر ڈالتی ہے۔

یہ اثر کبھی کبھی برا بھی ہو سکتا ہے، جسے عموماً نظر بد کہا جاتا ہے۔ نظر بد، حقیقت میں، ایک ایسا موضوع ہے جس کا ذکر قرآن مجید اور متعدد احادیث میں ہوتا ہے۔ احادیث میں نظر بد کے بارے کئی مرتبہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نظر کا لگ جانا حق ہے۔” اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث ہے: "اگر کوئی شے تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظر ہوتی۔” یہ عقیدہ اتنا مضبوط ہے کہ کہا گیا ہے: "نظر انسان کو قبر تک اور اونٹ کو ہانڈی تک پہنچا دیتی ہے۔”

ایک اور روایت کے مطابق، مسلمانوں میں، تقدیر کے بعد اموات کی بڑی وجہ نظر بد ہوگی۔ قرآنی تفسیریں بھی بتاتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا، تو کفار نے خصوصاً ایسے لوگوں کی مدد حاصل کی جو نظر لگانے کے ماہر تھے تاکہ آپﷺ کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس برے اثر سے محفوظ رکھا اور اس کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا۔

نظر بد کے اثرات کا ذکر نہ صرف دینی متون بلکہ عملی زندگی میں بھی ایک شناخت شدہ مسئلہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ہم اکثر اپنے معاشرے میں ایسے بچوں اور بچیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو انتہائی ذہین ہوتے ہیں، اپنی خوبصورتی سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں، یا اپنی فیملی میں منفرد اور خصوصی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بدقسمتی سے بد نظر کا شکار ہو کر کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا ناگہانی طور پر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

آج میں آپ کے ساتھ ایسی ہی دو کہانیاں شیئر کرنے جارہی ہوں جو حقیقت پر مبنی ہیں اور شاید آپ کو غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیں۔ میری والدہ اور خاندان کے تمام افراد ہمیشہ سے میری تعریف کرتے ہوئے کہتے تھے کہ میں اپنے بہن بھائیوں میں نہ صرف خوبصورت ہوں بلکہ ذہین بھی ہوں۔ مجھے بچپن سے ہی تعلیم کا بہت شوق تھا اور جب میں دسویں جماعت میں تھی، ہماری کلاس میں میرے سمیت ایک دوسری کے ساتھ مقابلہ تھا۔

ہر دفعہ امتحانات کے وقت ،جب امتحانات شروع ہوئے تین پرچوں کے بعد جب میں اسکول سے گھر واپس آئی، تو اچانک میرے ایک ہاتھ میں شدید درد شروع ہوگیا، جیسے کوئی بھاری پتھر میرے ہاتھ پر رکھ دیا گیا ہو، جس کی تکلیف سے میری چیخ نکلنے لگتی۔ درد کے دو دن بعد میرے دائیں جانب کا آدھا جسم مفلوج ہوگیا۔ میں بات نہیں کر سکتی تھی اور چلنے پھرنے سے عاجز تھی۔

ہم ہر ممکن ہسپتال گئے، ایم آر آئی کروایا، سب کچھ کرلیا، لیکن تمام رپورٹس بالکل درست آتی تھیں۔ میرے حالات کسی بھی طرح سے ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتے تھے، حتیٰ کہ تمام ڈاکٹرز حیران تھے کہ جب سب کچھ درست ہے تو ایسی کیا وجہ ہے جو مسئلہ بن رہی ہے۔ آخر کار، ہر ڈاکٹر نے مجھے یہی مشورہ دیا کہ کسی عامل کے پاس لے جایا جائے، کیونکہ ان کے مطابق یہ نظر کا مسئلہ ہے جو ایک دم سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔

اگر اس سے بہتر نہ ہوا تو دماغ کی سرجری کرنی ہوگی۔ دم سے علاج کرنے کے بعد میں دوبارہ چلنے کے قابل ہوگئی۔ دو ماہ تک چلنے سے معذوری کے باعث، میری تعلیم میں ایک نہ ختم ہونے والا تعطل پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میری جسمانی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس دوران میں، میری ذہنی صحت بھی شدید پریشانیوں کا شکار رہی، دل و دماغ میں بے سکونی چھائی رہی۔

تقریباً پانچ یا چھ سال کا عرصہ اس طرح ہسپتالوں اور روحانی علاج کرنے والوں کے درمیان گزرا، میری ماں ہمیشہ یہی کہتی رہی کہ انہیں یقین نہیں تھا کہ میں یہ سب برداشت کر کے بچ پاؤں گی۔ ان کے نزدیک وہ سب کچھ جو میرے ساتھ ہوا، کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔

دوسرا یہ کہ کچھ دن پہلے میں بازار گئی تھی اپنی دوا لینے کے لیے۔ میں نے دو تین میڈیکل سٹور پر فارمولا بتایا، لیکن وہ دوا دستیاب نہیں تھی۔ آخر کار میری ساس نے کہا کہ چلو فلاں میڈیکل سٹور پر دیکھتے ہیں، شاید وہاں مل جائے۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو میڈیکل سٹور پر ایک بوڑھا بابا بھی بیٹھا تھا، جس کے پاس کچھ دوائیں تھیں، مگر میری مطلوبہ دوا نہیں تھی۔

اس شخص نے کہا کہ آپ انتظار کریں، میں دوا لے کر آتا ہوں۔ اسی دوران بابا نے مجھ سے پوچھا، "بیٹا، کیا آپ تعلیم یافتہ ہیں؟” میں نے کہا جی، پھر کہا، "ایک بات کہنی ہے آپ سے، جو دوا ڈاکٹر لکھ کر دے، وہی لیا کریں، دوسری تیسری نہ لیں۔ پھر اس نے کہا، اس سٹور کے باہر جو گاڑی نظر آ رہی ہے، اس میں میرے دو جوان بیٹے ہیں۔ جب یہ چھوٹے تھے، ان کو نظر لگ گئی تھی اور ابھی تک ٹھیک نہیں ہو رہے۔ پاکستان کے اندر جتنے بھی ہسپتال ہیں، میں گیا ہوں۔ ملک سے باہر بھی چار پانچ ممالک میں علاج کے لیے جا چکا ہوں۔ ایک خاتون ڈاکٹر نے کچھ خاص گولیاں تجویز کی ہیں جو اس کا حل ہوسکتی ہیں۔ میں ابھی تک وہی دوا لیتی۔ جب میں باہر نکلی اور ان جوان لڑکوں کو دیکھا، تو مجھے رونا آ گیا۔ مجھے اپنی تکلیف اور اپنے والدین کی آنکھوں میں چھپا بھاری دکھ یاد آیا۔

میں تمام والدین کو یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے بچوں کی خاص صلاحیتوں کو چھپانے کی کوشش کریں اور دوسروں کے ساتھ نہ بانٹیں۔ ہر وقت نظر بد سے بچنے کے لئے دعائیں پڑھتے رہیں۔ اگر آپ کسی بچے یا بچی کو دیکھیں، تو مہربانی کرکے ہمیشہ ماشاء اللہ کہیں۔ ہر شخص جانتا ہوتا ہے کہ اس کی نظر لگ جاتی ہے اور یہ کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس نظر بد کی بدولت ماں باپ اپنے جوان بیٹے یا بیٹی کو کھو بیٹھ سکتے ہیں، جو ان کے بڑھاپے کی امید ہوتے ہیں۔ بوڑھے والدین اکثر جوان بیٹے اور بیٹیوں کی بیماری کا علاج کرانے کے لئے در در بھٹکتے ہیں، اس لئے احتیاط ضروری ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button