بلاگزعوام کی آواز

” اٹھ جاؤ لوگوں ، سحری کھا کر روزہ رکھ لو "، ڈھول کی تھاپ پر سنی جانے والی آواز اب ماند پڑ گئی

پاکستان میں بھی ماہ رمضان کے دوران سحری کے وقت ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانا ایک قدیم روایت تھی جو ایک دہائی قبل تک مقبول تھی تا ہم اب جدید ٹیکنالوجی کے باعث یہ روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔

سعدیہ بی بی

رمضان المبارک کی آمد جہاں زندگی میں عبادت کو پہلی صف میں لے آتی ہے، وہی اسلامی روایات کو بھی زندہ کر دیتی ہے۔ جدید زندگی میں جب رمضان المبارک ان روایات کی جھلک دکھاتا ہے۔ تو کہیں نہ کہیں ہم ماضی اور تاریخ کے جھروکوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان روایات اور کہانیوں کے پس منظر کی معلومات بھی کسی خزانے سے کم نہیں ہوتی۔ کسی کی تار مذہب کی بنیادوں تک ہیں تو کسی کے سماجی گہرائیوں تک۔ کسی روایت سے کسی ملک و قوم کی تہذیب کی جھلک ملتی ہے تو کسی سے مذہب کی۔

ان میں سے ایک روایت ہے ” مساہراتی ” یعنی کہ سحری میں روزے داروں کو بیدار کرنے والے فقیر یا درویش۔ ضروری نہیں کہ وہ داڑھی والے ہوں۔ عربی میں سحری جگانے والوں کو ” مساہراتی ” کہتے ہیں، ہندوستان اور برصغیر میں انہیں "سحرخوان ” کہا جاتا ہے ۔ وہ رمضان المبارک کے دوران ہر رات سحری سے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ قبل گلی گلی ڈھول کی تھاپ پر کچھ ایسی علاقائی گیت یا بول سناتے ہیں جو روزہ داروں کو اپنے بستروں سے نکل کر سحری کی تیاری پر مجبور کر دیتے ہیں۔

یہ روایت تقریبا چار سو سال پرانی ہے اور یہ سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ النصیر کے دور میں مصر سے شروع ہوئی۔ آپ حیران ہوں گے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر کا ایک بادشاہ ایسا تھا جو رات کو اپنی رعایا کو سحری کے لیے بیدار کرنے کے لیے نکلا کرتا تھا۔ اس حکمران کو تاریخ میں ” عتبہ ابن اسحاق ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو رمضان کے دوران قاہرہ کی سڑکوں کا دورہ کرنے والا پہلا شخص تھا جو لوگوں کو شاعرانہ انداز میں یہ کہتے ہوئے جگاتا تھا کہ "تم لوگوں میں سے جو سو رہے ہیں وہ اٹھیں اور اللہ کی عبادت کریں "۔

ایسے میں اس روایت کو تروتازہ رکھنے میں ترکی بھی بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ترکی میں سحری کے وقت ڈھول بجا کر روزے داروں کو جگانے کی روایات آج بھی آب و تاب کے ساتھ برقرار ہے اور اسلامی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی ترکی کے ڈھولیے عثمانی لباس زیب تن کیے ہوئے استنبول میں بھائی چارگی کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ماہ رمضان کے دوران سحری کے وقت ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانا ایک قدیم روایت تھی جو ایک دہائی قبل تک مقبول تھی تا ہم اب جدید ٹیکنالوجی کے باعث یہ روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔ سحری میں گیت اور نغمے گا کر جگانے والوں سے ہندوستان اور پاکستان کے کچھ شہر اب بھی واقف ہیں لیکن ایسے لوگ اب برائے نام رہ گئے ہیں۔ اگر کچھ ہے تو وہ عید میں کچھ کمانے کی نیت سے کرتے ہیں لیکن مشرق وسطی میں اس روایت کے پیچھے ایک جنون ہے۔

پاکستانی شہروں اور قصبوں میں رمضان المبارک میں سحری میں ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے والے اسے مذہبی عمل سمجھنے کے ساتھ ساتھ معاشی آسودگی کا ذریعہ بھی خیال کیا کرتے تھے۔ ایسے افراد میں زیادہ تر کا تعلق محلوں میں شادی بیاہ کے موقع پر ڈھول بجانے والوں سے ہوا کرتا تھا۔ اب روایتی موسیقی دم توڑتی جا رہی ہے اور یہ لوگ بھی کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔

سحری کے وقت جب یہ گلی محلوں سے گزرا کرتے تھے تو خواتین اور بچے خاص طور پر انہیں دیکھنے کے لیے کھڑکیوں اور دروازوں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ ڈھولچی رمضان کے بعد عید کے موقع پر اپنے علاقے کے گھروں پر جا کر مالی مدد کے طور پر عیدی کی صورت میں رقوم وصول کیا کرتے تھے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے سحری کے وقت لوگوں کو روزے کے لیے اٹھانے والی صدیوں پرانی روایت کے حامل ایسے ڈھولچیوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اب گلیوں اور محلوں میں ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ” اٹھ جاؤ لوگوں ، سحری کھا کر روزہ رکھ لو ” کی صدا کم ہی سننے میں ملتی ہے۔

پاکستان کے سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ سمارٹ فون جنریشن ایسی قدیمی روایات کے اتنے گرویدہ نہیں رہے اور نصف شب کو بستر میں دراز ہوتے وقت وہ ڈھول کی تھاپ کو نیند میں خلل بھی محسوس کرتے ہیں۔ آج کے دور میں شہری سمارٹ فونز ، الارم اور ڈیجیٹل گھڑیاں استعمال کرتے ہیں ، اس کے علاوہ گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے باعث بھی بیشتر شہریوں کو سحری تک جاگنے کی عادت ہو گئی ہے ۔ لوگ ساری رات سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں اس وجہ سے یا تو انہیں سحری میں جگانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی یا پھر وہ اپنے فون میں الارم لگا لیتے ہیں۔ ایسے ہی عوامل سے اس قدیمی روایت پر جدیدیت کی دھول جمنے شروع ہو گئی ہے۔ ہر سال سحری میں ڈھولچی کم ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی پذیرائی کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے ۔

اکثر اوقات ڈھولیے مہینے بھر لوگوں کو جگانے کا کام کرتے ہیں اور جب عید پر وہ اپنی رقم لینے جاتے ہیں تو سب یہی بول کر ٹال دیتے ہیں کہ ” ہم نے تو نہیں بولا تھا کہ ڈھول بجاتے رہو ، ہم تو سحری میں جاگنے کے لیے الارم لگاتے ہیں ” لوگوں کی زندگیوں میں ڈھول بجانے والوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے ہمیں ان نوجوانوں پر افسوس ہوتا ہے، جو روایت اور ثقافت کی اہمیت کو نہیں سمجھتے، لیکن کچھ لوگوں کو ڈھول بجانے کی روایت پسند ہے اور وہ آج بھی محلے والوں سے رقم جمع کر کے سحری میں جگانے کے لیے ڈھول والے کا بندوبست کرتے ہیں ۔

Show More

Sadia Bibi

سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہیں مختلف سماجی و معاشی مثال پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں

متعلقہ پوسٹس

Back to top button