بلاگزعوام کی آواز

ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہر: کیا پاکستان میں علماء کا قتل ایک سازش ہے؟

حمیرا علیم

نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں پاکستان میں ایک پرائیویٹ چینل این ٹی ایم  پر رمضان میں افطار سے پہلے یا بعد میں ایک مختصر پروگرام آتا تھا۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر غلام مرتضی ملک قرآن کی تفسیر نہایت آسان اور پر اثر انداز میں کرتے تھے۔ یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ میں نے کسی عالم دین کو آسان اردو میں اور نہایت نرم لہجے میں قرآن کی تفسیر کرتے دیکھا تھا۔

ڈاکٹر مرتضی میرے پہلے استاد تھے میں نے ان سے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ 7 مئی 2002 کو لاہور میں ڈاکٹر غلام مرتضی ملک کی گاڑی پر فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا گیا۔ یہ ملک کے لیے ایک بڑا نقصان تھا کہ ایک معتدل عالم دین کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن پھر یہ رسم  ہی چل نکلی۔ وقتا فوقتا مختلف علماء کی گاڑیوں پر حملے یا فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا جاتا رہا، خصوصا کراچی میں۔

اس سال کے پی میں رمضان میں کئی علماء خودکش حملوں یا نا معلوم افراد کی فائرنگ میں شہید ہوئے جن میں مولانا عبد الحمید رحمتی، مفتی منیر شاکر، مولانا یار محمد محسود اور  کوئٹہ میں مفتی عبدالباقی نورانی شامل ہیں۔

عبدالباقی صاحب پر ائرپورٹ سے نکلتے ہوئے فائرنگ کی گئی۔ اگرچہ خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے پورے پاکستان خصوصا کے پی اور بلوچستان میں معمول کی بات ہیں۔ لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اب ان کا ٹارگٹ ایسے علمائے دین ہیں جو کہ قرآن سنت کے مبلغین ہیں۔ کسی کے قتل کی وجہ لڑکیوں کی تعلیم کو جائز قرار دینا بنی، تو کسی کے قتل کی وجہ فرقہ واریت سے روک کر اتحاد قائم کرنے کا درس دینا بنی۔

پہلے ہمارے تعلیمی ادارے اور عبادت گاہیں نشانہ تھیں تو اب ہمارے باعمل علماء۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دشمنوں کا مقصد صرف ہمارے ملک میں انتشار پھیلانا، ہماری نسلوں کو مٹانا ہی نہیں بلکہ دین اسلام کے خاتمے کی ناکام کوششیں بھی ہیں۔

جب کسی عالم دین کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس کے پیچھے وہ نظریاتی جنگ کار فرما ہوتی ہے، جو اسلام دشمن عناصر دین کی روشنی کو بجھانے کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ علما کا قتل درحقیقت حق کی آواز کو دبانے کی ایک کوشش ہے تاکہ عوام کو دینی رہنمائی سے محروم کر دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف مساجد اور مدارس میں خوف کی فضا پیدا ہوتی ہے بلکہ دین کی تبلیغ اور اشاعت بھی متاثر ہوتی ہے۔ عوام کے لیے علمائےدین کا قتل عدم تحفظ اور بے یقینی کا باعث بنتا ہے اور ایسے حالات میں دینی ادارے کمزور پڑنے لگتے ہیں۔ جو پورے معاشرے کے لیے ایک خطرناک علامت ہے۔

پاکستان میں علمائے دین کا قتل  معاشرتی، دینی، اور اخلاقی نقصان کا باعث ہے۔ علمائے دین لوگوں کو نہ صرف اسلامی تعلیمات دیتے ہیں بلکہ غلط و درست میں فرق سکھاتے ہیں۔ ان کا قتل درحقیقت اسلام پر حملہ ہے۔  جب علماء کی زندگیاں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں تو لوگ دین کے متعلق درست رہنمائی سے محروم ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً گمراہی اور بدعات کو فروغ ملتا ہے۔

ایسے واقعات سے خوف و ہراس پھیلتا ہے۔جس کی وجہ سے لوگ سچ بولنے اور حق بات کہنے سے گریزاں ہو جاتے ہیں۔ ایسے حادثات فرقہ واریت، انتہا پسندی اور سماجی انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ جب مذہبی شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تو یہ عمل ایک خاص طبقے میں انتقامی جذبات کو بھڑکا سکتا ہے۔ جس سے معاشرے اور ملک میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس سے دشمن اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ اکثر  مختلف صوبوں کے اندرون علاقوں میں سے دشمن ممالک کے غیر مسلم جاسوس مختلف مساجد کے امام بن کر عشروں تک نہ صرف جاسوسی کرتے بلکہ فتنے پھیلاتے پکڑے جاتے ہیں۔

 حدیث نبوی ہے:”اللہ تعاليٰ تمہیں علم عطا کرنے کے بعد اسے (سینوں سے) اُٹھا لےگا۔ اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے۔ لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنا لیں گے۔ ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے۔ وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“ صحیح بخاری 2665

احادیث میں یہ پیشنگوئی کی جا چکی ہے کہ قرب قیامت میں علماء اٹھا کر علم اٹھا لیا جائے گا۔ نیم حکیم خطرہ جان قسم کے بے علم لوگ عوام کو آسانی سے گمراہ کریں گے۔ آج کل ایسا ہو بھی رہا ہے۔ لوگ قرآن حدیث کا استعمال کر کے دنیاوی فوائد کے لیے اسلامی تعلیمات کے برعکس فتوے دے رہے ہیں۔ اپنے ناقص علم و عقل کی بنیاد پر دین میں ابہام اور بدعات پیدا کرتے ہیں۔ نتیجتاً، معاشرے میں غلط نظریات فروغ پانے لگے ہیں اور دینی وحدت پارہ پارہ ہو رہی ہے۔ لوگ بجائے اسلام پر عمل کے اس میں اختلاف پیدا کر کے فتنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

علمائے دین کا تحفظ محض حکومت اور سیکورٹی اہجنسیز کی ذمہ داری ہی نہیں ۔بلکہ پوری امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ ہمارے دین، معاشرے اور قومی وجود کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اگرچہ یہ تو یقینی بات ہے کہ علماء پر حملہ کرنے والے مسلمان نہیں مگر پھر بھی ایسے حملوں کی روک تھام کے لئے عوام کو آگاہی دی جائے کہ علماء کا تحفظ دراصل دین کا تحفظ ہے۔ تعلیمی نصاب میں علماء کے احترام ان سے محبت کو فروغ دیا جائے۔ عوام کے سامنے علماء کا مثبت کردار لایا جائے تاکہ لوگ دشمن کے پراپگنڈے کا شکار نہ ہوں۔ امن بھائی چارے کی فضا قائم کی جائے۔

اگر کسی عالم دین کو خطرہ ہو تو ان کی سیکورٹی کا انتظام کیا جائے۔ ہر قسم کے میڈیا پر اسلام اور علماء کے خلاف نفرت انگیز مواد کو روکا جائے اور ایسا مواد پھیلانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ علماء کو بھی چاہیئے کہ اپنے دروس اور تقاریر میں حکمت و نرمی اختیار کریں تاکہ اصلاح بھی ہو جائے اور کسی سے دشمنی بھی نہ پیدا ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button