بلاگزعوام کی آواز

معمولی اختلاف پر قتل، کیا کسی انسان کی جان لینا اتنا ہی آسان ہے ؟

حمیرا علیم

کہا جاتا ہے کہ  رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ یے اس  میں شیطان قید کر دئیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ جن شیطان ہوتے ہیں، انسانی شیطان جو کہ جنوں سے کہیں زیادہ تیز، ذہین اور خطرناک ہیں وہ تو آزاد رہتے ہیں۔ اس کا ثبوت آئے روز ہونے والے جرائم خصوصا قتل کی خبریں ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے رمضان میں خبروں میں ہر روز قتل کی خبریں بکثرت سننے کو مل رہی ہیں۔

اس سال تو عجیب و غریب وجوہات کی بنا پر قتل ہو رہے ہیں۔ کتے پر جھگڑے کی وجہ سے قتل، دیوار پر پلستر کرنے سے ٹک ٹک کی آواز آنے پر قتل، واٹس ایپ گروپ سے نکالے جانے پر ایڈمن کا قتل، بیٹے کا معمولی جھگڑے پر والدہ بہن بھائی کو قتل، جائیداد کے تنازعے پر پورا خاندان قتل۔ کیا یہ سب باتیں اتنی بڑی تھیں کہ ان کے لیے کسی کو مار ہی دیا جائے؟ کیا انسانی جان ایک کتے، چند روپوں، زمین کے ایک ٹکڑے، یا ہماری انا کی تسکین کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی؟

ہم بحیثیت قوم بےحس اور بے ضمیر ہو چکے ہیں۔ یا ہمارے ماحول، حالات اور مشکلات نے ہمیں اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ ہم کسی کی ذرا سی بات، ذرا سا اختلاف، ہماری مرضی کے بغیر کیا جانے والا کام برداشت ہی نہیں کر پاتے۔ ہر مذہب اور اخلاقیات کا درس یہی ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے نرمی سے بات کی جائے۔خصوصا اسلام تو ہمیں دوسروں کی خیرخواہی کا حکم دیتا ہے۔دوسروں کے جان و مال، عزت کو ایسے حرام قرار دیتا ہے جیسے اپنی جان و مال اور عزت ہو۔

ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے کر اس جرم کی سینگنی کا احساس دلاتا ہے اور اگر قتل ہو ہی جائے تو قاتل کو بھی معاف کرنے کی نصیحت کرتا ہے۔ جس دین کی تعلیمات دوسروں کے لیے اس قدر درد دل اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنے کا کہتی ہیں اس کے پیروکار آپس میں یوں جنگ آزما ہیں جیسے جانی دشمن۔

ڈاکٹر اسد امتیاز اپنی ڈائری لکھتے ہیں جس میں اکثر ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جو دوسروں کے لیے سبق آموز ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ کلینک پر بہت مصروف تھے اتنے کہ نماز اور لنچ کا بھی ٹائم نہ ملا۔ عصر کے وقت انہوں نے اسٹنٹ سے مریضوں کو بریک کا کہہ کر لنچ منگوایا اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگے تو کمرے کے باہر سے کسی مریض کے اسٹنٹ سے لڑنے اور دھمکیاں دینے کی آوازیں آنے لگیں۔ ڈاکٹر اسد کہتے ہیں:” میں قارئین کو ایک لمحے کیلئے,ایک خیالی اور حقیقت کے قریب منظر پیش کرنا چاہوں گا۔

“میرا بٹ برادری خون بھی جوش مار جاتا ہے اور میری انا نے فیصلہ کیا کہ چلو کھانے کی تو خیر ہے یہ صاحب تو نماز بھی نہیں  پڑھنے دے رہے، اسے میرا بھی نہیں پتا،کرتا ہوں اس کا دماغ سیٹ۔۔۔۔ میں باہر نکل کر ایسا ہی کرتا ہوں اور شدید بدمزگی ہوتی ہے،میں ضد میں آ کر اس کے مریض کو دیکھنے سے ہی انکار کر دیتا ہوں اور وہ بھی چار بندوں کے سامنے ہم سب کو برا بھلا کہہ چلا جاتا ہے، میری انا کی تسکین ہو جاتی ہے۔

اور خیر سے نہ میں ڈسکہ کی مشہور زمانہ بادشاہ کی مچھی انجواے کرتا ہوں اور نماز تو پڑھی نہ پڑھی ایک جیسی اور پھر جب انا کا شیطان اتر کر مسکراتے ہوئے سائیڈ پر بیٹھ جاتا ہے، تو ضمیر بھائی ہمیشہ کی طرح لیٹ ملامت کرتا ہے ۔

یار اسد وہ تو مریض تھا تو نے ڈاکٹر ہوتے ہوئے یہ کیا حرکت کی؟

اصل منظر !!!

میں وضو کر کے واش روم سے آفس میں آتا ہوں اور میرا اسسٹنٹ مجھے سارا واقعہ گوش گزار کرتا ہے،سامنے ٹیبل پر بادشاہ کی مچھی ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ میں نے کہا، اس نوجوان کو اندر بلاؤ ۔کف گراتا غصہ میں نوجوان اندر آتا ہے۔ میں مسکرا کر مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتا ہوں، اس کے چہرے کا تناو ایک دم کم ہو جاتا ہے۔میں اسے بیٹھنے کا کہتا ہوں وہ اور دھیما ہو جاتا ہے۔

میں نے پوچھا مریض کون ہے،اس نے بتایا اس کی والدہ ہے۔ میں نے کہا ان کو بھی اندر بلا لو یار۔ ہم پہلے اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ آپ نے بھی یقیناً کھانا نہیں کھایا ہو گا۔ ساتھ ساتھ بیماری کے متعلق گپ شپ بھی لگا لیتے ہیں اور بعد میں معائنہ کرلیں گے۔

یہ کہنے کی دیر ہوئی کہ وہ مسکرا کر تھوڑا شرماتے ہوئے کہنے لگا نہیں ڈاکٹر صاب آپ کھانا کھائیں اور نماز بھی پڑھ لیں۔کوئی مسئلہ نہیں ہم انتظار کر لیتے ہیں میرے اصرار کے باوجود انہوں نے کھانا تو نہ کھایا، بلکہ بعد از معائنہ مجھے سپیشل کھانے کی دعوت دے کر گیا۔

"جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے درگُزر کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔”آل عمران 134

آخرت تو بعد کی بات ہے میرے نزدیک اسی دنیا میں ہی زندگی سہل ہو جاتی ہے ان لوگوں کی جو غصہ کو پی جانے کا فن جان لیتے ہیں اور سلام کہہ کر چل پڑتے ہیں، اپنی منزل کی طرف رواں دواں۔

انسان کی تخلیق کے وقت اللہ کی طرف سے پہلی وحی بھی اپنی انا کو ہی ختم کرنے کی صادر ہوئی جب فرشتوں نے تو انا کو بالاے طاق رکھ کر آدم کو سجدہ کر لیا اور ابلیس ”اپنی انا” کے ہاتھوں ملعون ٹھہرا۔

اگر ہم سب بھی ڈاکٹر اسد کی طرح کسی بھی ری ایکشن سے پہلے کچھ لمحوں کے لیے رک کر، اپنی انا سائیڈ پر رکھ کر، اس منظر کا تصور کر لیں جو ہمارے رد عمل  کا نتیجہ ہو سکتا ہے، تو شاید ہم سب کی زندگیاں بھی سہل ہو جائیں۔لوگ ایک دوسرے کی جان لینے کی بجائے آسانیاں پیدا کریں اور معاشرہ پرسکون ہو جائے۔

آئیے عزم اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں فورا رد عمل کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کریں گے اور اس حد تک تو ہرگز نہیں جائیں گے کہ کسی کی جان ہی لیں لیں اور خود باقی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پچھتاوں کا شکار ہو کر گزاریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button