"اپنی جان لینے کا کوئی آسان طریقہ ہے؟ "، خواجہ سراؤں کی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپا درد

مصباح الدین اتمانی
ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر افراد کو ہمیشہ ایک عجیب نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ افراد اپنے ارد گرد کی دنیا میں مسکراہٹیں بکھیرتے نظر آتے ہیں، مگر ان کی اندر مایوسی اور درد کے وہ دریا بہتے ہے، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ان کہ مسکراہٹیں اکثر بے سکونی اور درد کو چھپانے کے لیے ہوتی ہیں۔
تقریباً 15 سے 20 دن پہلے ایک ورکشاپ میں میری ملاقات ایک خواجہ سرا سے ہوئی۔ ان کا معصوم اور سلجھا ہوا انداز اس قدر بہترین تھا کہ میں بے اختیار ان کی باتوں میں محو ہو گیا۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والا یہ خواجہ سرا تعلیم یافتہ اور باعزت روزگار بھی کرتے ہے، اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوش یہی لوگ ہے۔
دو دن پہلے جب اس کی کال آئی تو میں مصروف تھا اور میں نے کال کٹ دی اور میں نے اسے میسج کیا کہ میں بعد میں کال کروں گا۔ آج صبح اپنے دفتر میں بیٹھا تھا تو یاد آیا کہ میں نے موصوف کو واپس کال نہیں کی شاید اس کا کوئی کام ہوں۔ میں نے تقریباً ایک بجے کال کی۔ دوسری طرف سے وہ ہنستے ہوئے بات کر رہا تھا، اور اپنی زندگی کی کامیاب کہانیاں بتا رہا تھا۔
جب میں نے اس سے اس کے کام کے بارے میں پوچھا تو وہ خوش دلی سے بتا رہا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا جا رہا ہے۔ پھر باتوں باتوں میں اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا، "مصباح، کیا زندگی ختم کرنے کا کوئی آسان طریقہ ہے؟” یہ سوال سنتے ہی میری زبان ساکت ہو گئی۔ مجھے الفاظ نہیں ملے کہ میں کیا جواب دوں۔ پھر میں نے بمشکل جواب دیا، "زندگی تو بہت خوبصورت ہے، اور آپ کی زندگی ہم سے زیادہ حسین ہے۔ زندگی کے لیے دعا کرو، کیونکہ یہ زندگی بہت قیمتی ہے۔
اس کے بعد جو اس نے کہا، اس نے مجھے یہ بلاگ لکھنے پر مجبور کیا۔ وہ بولا، "آپ کو ہماری حقیقی زندگی کا نہیں پتہ” اور پھر وہ زار و قطار رونے لگا۔ میں "ہیلو ہیلو” کرتا رہا، مگر اس کی حالت ایسی تھی کہ اس نے صرف اتنا کہا، "مصباح، میں بعد میں آپ سے بات کرتا ہوں۔”
یہ ایک واقعہ نہ صرف مجھے بلکہ ہر کسی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے ان افراد کے ساتھ کتنی بے رخی سے پیش آتے ہیں، جنہیں ہم "خواجہ سرا” یا "ٹرانس جینڈر” کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی میں مسکراہٹیں اکثر دکھاوے کی ہوتی ہیں، مگر حقیقت میں ان کے اندر گہری مایوسی اور تنہائی چھپی ہوتی ہے۔
یہ افراد ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، اور اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔ انہیں نظر انداز کرنے کی بجائے، ہمیں ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اگرچہ یہ لوگ عوام کے سامنے ہنستے ہیں، ناچتے ہیں اور خوش دکھائی دیتے ہیں، مگر ان کی تنہائی اور دلی اذیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی زندگیوں میں کئی ایسی داستانیں ہیں جو شاید ہم سمجھ نہیں پاتے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ بعض اوقات اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔
یہ خواجہ سرا بھی انسان ہیں، اور ان کی زندگیوں میں خوشی، محبت اور سکون کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، نہ کہ انہیں ان کے دکھوں میں اکیلا چھوڑ دینے کی۔ ان کی زندگی کا مقصد بھی ہمارے ہی جیسے ہیں، صرف ان کا سفر مختلف ہے۔
ہمیں اپنی آنکھوں کو کھول کر اپنے معاشرتی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان افراد کے ساتھ ہمدردی، محبت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیئے، تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکیں اور ایک باعزت مقام حاصل کر سکیں۔
یاد رکھیں، ہر انسان کی زندگی میں مشکلات ہوتی ہیں، اور ہمیں کسی کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اگر ہم سب تھوڑی سی سمجھداری سے سوچیں، تو ہم ایک بہتر اور محبت سے بھرا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔