بلاگزعوام کی آواز

خاموش خطرہ: ایک پوش علاقے میں لرزہ خیز رات

صدف سید

شہر کی وہ شام عام دنوں جیسی تھی، پرسکون، رواں دواں، جیسے کوئی پوش علاقہ ہمیشہ سے محفوظ اور بے فکر رہنے کے لیے ہی بنا ہو۔ میں چند دنوں کے لیے یہاں قیام پذیر تھی، جہاں رات کے وقت سڑکیں چمکتی تھیں، اور ہر طرف ایک پُرتعیش سکون کی چادر تنی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ قریب ہی ایک پارک تھا، جہاں بچے کھیلتے، نوجوان خوش گپیوں اور اپنی فٹنس کے لیے جاگنگ اور واک میں مشغول نظر آتے، اور بزرگ سیر و تفریح میں دل بہلا رہے ہوتے تھے۔ زندگی رواں دواں نظر آتی۔ مگر اُس رات کچھ ایسا ہوا جس نے اس علاقے کے سکون کو تہس نہس کر دیا۔

سب کچھ معمول کے مطابق تھا، میں اپنی قیام گاہ میں تھی کہ جب رات کی گہری خاموشی میں اچانک ایک دھماکہ خیز آواز گونجی۔ جیسے کسی نے سناٹے کو چیر کر رکھ دیا ہو۔ میں چونک کر کھڑی ہوگئی- ایک لمحے بعد کسی عورت کی بلند آواز سنائی دی، جس میں غصہ، خوف اور بے بسی سب شامل تھے۔ وہ کسی پر برس رہی تھی، اور اس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی خاموشی سے کھڑی تھی، اس کی آنکھوں میں وحشت کی جھلک نمایاں تھی۔

کچھ ہی دیر میں حقیقت سامنے آ گئی۔ یہ دونوں خواتین ایک خوفناک ڈکیتی کا شکار ہو چکی تھیں۔ وہ ایک آٹو رکشہ میں اپنے گھر واپس آ رہی تھیں جب دو موٹر سائیکل سواروں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ شاید لڑکی اپنے موبائل فون میں مگن تھی، اور یہی چیز ان لٹیروں کی نظروں میں آ گئی۔ جیسے ہی رکشہ گھر کے قریب پہنچا، موٹر سائیکل سوار آگے بڑھے۔ ایک لمحے میں انہوں نے پستول نکالی اور رکشہ روکا۔

لڑکی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں، اس کی ماں نے بے بسی سے اردگرد دیکھا، مگر کوئی مدد نہیں تھی۔ چور نے بندوق کا رخ سیدھا لڑکی کی طرف کیا، اور اس کی کپکپاتی انگلیوں سے موبائل جھپٹ کر فرار ہو گئے۔

چوکیدار، جو چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا، نے گھبرا کر بندوق نکالی اور ایک گولی چلا دی۔ مگر یہ واضح نہ ہو سکا کہ یہ گولی کسی کو روکنے کے لیے تھی یا محض علاقے کو خبردار کرنے کے لیے۔ لیکن اس گولی نے دہشت کی شدت کو اور بڑھا دیا۔ ماں غصے میں کانپ رہی تھی، لڑکی سکتے میں تھی، اور پورے علاقے میں ایک عجیب سی بے بسی پھیل چکی تھی۔

یہ واقعہ محض ایک حادثہ نہیں تھا، بلکہ اُس سچائی کی ایک اور مثال تھا جو ہم میں سے کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ ایک ایسا خوفناک خواب، جو کراچی جیسے شہر میں حقیقت بن چکا ہے۔ یہ شہر، جو دن کے اجالے میں زندگی سے بھرپور نظر آتا ہے، رات کے اندھیروں میں ایک بے قابو جنگل میں تبدیل ہو جاتا ہے، جہاں شکاری بے خوف گھومتے ہیں اور مظلوموں کو اپنی کمزوری کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔

یہ سوال ذہن میں ہتھوڑے کی طرح بجنے لگا، ایسے واقعات اتنے عام کیوں ہو گئے ہیں؟ کیا یہ صرف ایک بدنصیبی تھی، یا اس کے پیچھے وہ خامیاں ہیں جو ہمارے سیکیورٹی نظام کو کھوکھلا کر چکی ہیں؟ اس علاقے میں بھی، جہاں مہنگے گھر اور چمچماتی گاڑیاں تھیں، وہاں بھی سیکیورٹی صرف ایک دکھاوا تھی۔ چوکیدار موجود تھے، مگر تربیت سے محروم۔ CCTV کیمرے تھے، مگر جرائم روکنے میں بے بس۔

مگر صرف حفاظتی اقدامات کی کمی ہی قصوروار نہیں تھی۔ لوگوں کی بے فکری بھی ان حادثات کو بڑھاوا دیتی ہے۔ ہم موبائل فون ہاتھ میں لیے چلتے ہیں، رکشے میں بیٹھ کر کالز کرتے ہیں، یہ بھول کر کہ کوئی کہیں چھپ کر ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ غفلت لمحوں میں ہمیں شکار بنا دیتی ہے۔

مگر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

سب سے پہلے، ہمیں خود اپنی حفاظت کے لیے ہوشیار رہنا ہوگا۔ عوامی جگہوں پر غیر ضروری طور پر موبائل فون کا استعمال کم کریں۔ اگر محسوس ہو کہ کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی بار بار پیچھے آ رہی ہے، تو فوراً راستہ بدل لیں اور سب سے اہم، اگر رکشے یا عام ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہے ہیں تو موبائل کو نظروں سے اوجھل رکھیں۔

دوسری طرف، ان علاقوں کے رہائشیوں کو بھی اپنی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ جدید سیکیورٹی کیمرے، مستعد چوکیدار اور ہنگامی صورتحال میں فوری ردِعمل دینے والا سسٹم لازمی ہونا چاہیئے۔ لیکن سب سے زیادہ ضروری ہے کہ قانون کا نفاذ سخت ہو۔ جب تک مجرموں کو فوری اور عبرتناک سزائیں نہیں دی جائیں گی، تب تک وہ دندناتے پھرتے رہیں گے۔

یہ واقعہ میرے لیے ایک تلخ تجربہ تھا۔ وہ پارک، جو کل تک مجھے سکون کی علامت لگتا تھا، آج وہاں جاتے ہوئے دل ہچکچانے لگا۔ ایک رات نے میری سیکیورٹی کے بارے میں سوچنے کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ مگر یہ صرف میری کہانی نہیں، یہ ہزاروں کہانیوں میں سے ایک ہے۔

سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کتنے اور لوگ اسی صدمے سے گزریں گے؟ کب ہم اپنی حفاظت کو سنجیدگی سے لینا شروع کریں گے؟ تحفظ ایک بنیادی ضرورت ہے، نہ کہ کوئی عیاشی۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں، اور اپنی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button