رمضان کا حقیقی مقصد: عبادات، صدقہ اور خیرات یا پھر ٹی وی شوز، افطار ٹائم ڈراماز، سحر افطار ٹرانسمیشن ؟

حمیرا علیم
رمضان کا آغاز ہونے والا ہے اور شیطان کی خوشی کی انتہا نہیں کہ جو ٹریننگ اس نے 11 مہینوں میں انسانوں کی کی ہے اس کا ثمر اسے ملنے کو ہے۔ ٹی وی شوز، افطار ٹائم ڈراماز، سحر افطار ٹرانسمیشن، کھانوں کے پروگرامز، سحر افطار میں مخلوط محافل اور ان سب کو باعث ثواب سمجھ کر دیکھنے والے درحقیقت شیطان کے بڑے آسان شکار ہیں۔ جن کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کے لیے اسے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ بس چند قیمتی تحائف، بائیکس، کارز اور ٹی وی پر آنے کا لالچ اور رمضان کا سارا تقدس اور اپنی عبادات پامال۔
رمضان سے چند دن پہلے جس حساب سے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، کھانے بنانے کی تراکیب، انہیں فریز کرنے کے طریقے اور سینکڑوں ڈشز شیئر کرتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے رمضان عبادات و صدقہ خیرات کا مہینہ نہیں بلکہ کھابوں، رات کو سحر کے انتظار میں کرکٹ کھیلنے اور سحر سے افطار تک کے درمیان ڈرامے شوز دیکھنے کا مہینہ ہے۔
بچپن میں ٹی وی پر سحر افطار کے خصوصی دروس، احادیث کی تشریح دعائیں دیکھتے تھے۔ کیسے سنت پر چلنا ہے یہ بھی سیکھتے تھے۔ مگر اب تو لگتا ہے رمضان، چاند رات، عید، اللہ نے صرف عیاشی کرنے کے لیے عطا فرمائے تھے۔ ہمارا کوئی تہوار، ایونٹ، رسم کم از کم دس قسم کے کھانوں کے بغیرتو مکمل ہوتا ہی نہیں۔
جہاں تک میرا مطالعہ ہے، قرآنی حکم اور سنت یہی ہے کہ اس ماہ میں بنسبت باقی سال کے فرائض کے ساتھ نوافل، صدقہ، خیرات، زکوہ، مستحقین کی مدد، نیکی کے وہ سارے کام جو اللہ رسول نے بتائے ہیں، دو بار دورہ قرآن، قیام الیل، اذکار ، عمرہ کی کثرت کرنی چاہیئے کیونکہ ہر عمل کا اجر اس ماہ مبارکہ میں کئی گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔
لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ چاہے کوئی غریب ترین گھرانہ بھی ہو جس کے پاس ایک وقت کا کھانا کھانے کے وسائل بھی نہ ہوں۔ چاہے ادھار اٹھائے یا مانگے اس ماہ میں پکوڑے، سموسے، رولز، کچوریاں، چاٹ ، پھینیاں، کھجلے، بھاری ناشتے، جوسز، شربت نہ کھائے پیے تو سمجھتا ہے کہ رمضان کا کیا فائدہ۔ بے شک اتنا ٹھونس کے نماز فجر اور عشاء پڑھنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ بدہضمی ہو جائے مگر رمضان منانے کا واحد ذریعہ جی بھر کے آرام، کھیل، تفریح اور کھابے ہیں۔
اللہ جانے اس ٹرینڈ کو کس نے سیٹ کیا تھا ککنگ چینلز، شیفس، فوڈ پراڈکٹس کمپنیز، ریسٹورنٹس، ہوٹلز یا عوام نے خود۔ لیکن کیا سب کے لیے برا ہی ہے۔کیونکہ جب عوام ماہانہ گروسری سے تین گنا اشیاء خریدتی ہے تو تجار کی بھی چاندی ہو جاتی ہے۔ وہ ہر چیز دگنی تگنی قیمت پر بیچتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں احترام رمضان میں چیزیں سستی ترین کی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں مہنگی ترین۔ جرمنی، امریکہ، انگلینڈ جیسےممالک بھی مسلمان کمیونٹی کو ریلیف دیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے تاجر بھائی سمجھتے ہیں کہ کما لو جتنا کمانا ہے، بس یہی مہینہ ہے کمائی کا۔ اس کے بعد شاید دنیا کھانا چھوڑ دے گی۔ گورنمنٹ ہے تو وہ اس ستم میں اپنا حصہ ضرور ڈالتی ہے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں کاغذوں میں کم کر کے کوئی چیک نہیں رکھتی اور تاجر من مانی کرتے رہتے ہیں۔ یوں اس مہینے کا اصل مقصد کہ دوسروں کی خیر خواہی ، مدد، ان کا احساس کیا جائے فوت ہو جاتا ہے۔
بالآخر یہ مشکل عید کے دوسرے دن آسان ہو جاتی ہے۔ تجار بھی پرانی جون میں آ جاتے ہیں۔خواتین جو رمضان میں باقی سب کاموں کے ساتھ ساتھ کسی پروفیشنل شیف کی ذمہ داری نبھاتے سارا مہینہ گزار دیتی ہیں تین وقت کے کھانے بنانے لگتی ہیں۔ مرد حضرات جو آفس لیٹ جا کر ایک بجے تک اونگھتے رہتے ہیں کہ ہم سے تو کام نہیں ہوتا ہمارا روزہ ہے۔ذرا ہاتھ پیر ہلانے لگتے ہیں۔ بچے جو تین چار گھنٹے کے لیے اسکول جاتے تھے دوبارہ سے 8 سے 2 تک پڑھنے لگتے ہیں۔
آئیے اس رمضان کوشش کرتے ہیں کہ بجائے کھانوں اور فضول کاموں میں وقت کے ضیاع کے سب سے پہلے قرآن حدیث سے رمضان گزارنے کے طریقے جانیں پھر ویسا رمضان گزاریں جیسا ہم سے مطالبہ یے۔ میں پچھلے کئی سالوں سے اسی کوشش میں ہوں اور الحمد للہ کامیاب بھی ہوں۔ بچوں اور ان کے والد کے لیے کبھی کبھار پکوڑے، سموسے چاٹ بن جاتی ہے۔ ورنہ سب روزانہ ایک کھجور اور پانی کے ساتھ روزہ کھول کر نارمل کھانا ہی کھاتے ہیں جو کہ سارا سال بنتا ہے۔
میں افطار پارٹی نہ کرتی ہوں نہ کہیں جاتی ہوں کہ تراویح و دیگر اذکار مس نہ ہوں۔ بہت ہی دل چاہے تو کسی مستحق کو چند چیزیں بنا کر بھیج دیتی ہوں یا راشن، نقد دے دیتی ہوں اور یقین مانیے میرا رمضان بہت اچھا گزر جاتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے ایسا کچھ بھی کرنا نا ممکن ہے۔ لیکن کوشش میں حرج نہیں۔
جب سب قرآن حدیث، سیرت النبی جان لیں گے تو شاید ان پر اثر ہو جائے اور خواتین کی زندگی بھی آسان ہو جائے اور مرد حضرات پر سے بھی خرچے کی ٹینشن و بوجھ ہلکا ہو جائے۔ یہ فضول کے بوجھ ہم ہی اپنی گردنوں سے اتار سکتے ہیں کوئی اور نہیں۔ تو آئیے پہلا قدم دھرتے ہیں یہ عزم اور کوشش کرتے ہیں کہ اس رمضان ہم عبادات صدقہ خیرات کی کثرت کریں گے کھانوں تفریح کی نہیں ۔