بلاگزعوام کی آواز

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے۔۔۔۔

صدف سید

یہ شہر عجیب ہے۔ یہاں بولنے والے دو قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو زبان کو سانس لینے کی طرح برتتے ہیں—بے ساختہ، روانی سے، اور بغیر کسی اضافی کوشش کے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ماؤں کی لوریوں میں، دادا کی کہانیوں میں، اور گلی میں کھیلتے ہوئے اردو سیکھ لی۔ ان کے لیے زبان محض الفاظ نہیں، ایک وراثت ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔

دوسرا قبیلہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اردو کو سیکھنے کی ٹھانی، جیسے کوئی اجنبی سرزمین میں نیا نیا وارد ہوا ہو اور ہر لفظ کو سمجھنے، پرکھنے اور صحیح تلفظ میں ادا کرنے کی جدوجہد کر رہا ہو۔ وہ گرامر کی کتابیں چاٹتے ہیں، یوٹیوب پر "اردو بولنے کے 10 آسان طریقے” دیکھتے ہیں، اور لغت میں ہر دوسرے دن کوئی نیا لفظ تلاش کرکے محفل میں جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ دونوں قبیلے ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر ان کے بیچ ایک نادیدہ لکیر کھنچی رہتی ہے۔ قدرتی بولنے والے چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر بے فکری سے کہتے ہیں، "یار، وہ بندہ بڑا لچ تل رہا تھا!”اور خود سیکھنے والا فوراً چونک کر چشمہ درست کرتا ہے، کھنکار کر گلا صاف کرتا ہے، اور نرمی سے کہتا ہے،
"معاف کیجیے، لیکن اردو میں ایسا نہیں کہا جاتا!”

یہ فرق مذاق میں بھی نظر آتا ہے۔ قدرتی اردو بولنے والا جب کوئی لطیفہ سناتا ہے تو جملے میں وہ بے ساختگی ہوتی ہے جو صدیوں کی ثقافت میں گندھی ہوتی ہے، جبکہ خود سیکھنے والا لطیفہ یوں بیان کرتا ہے کہ پہلے پس منظر بتاتا ہے، پھر جملے کی گرامر پر روشنی ڈالتا ہے، اور آخر میں سامعین کی طرف دیکھ کر کہتا ہے،
"یہاں ہنسنے کی اجازت ہے!”

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان کا اصل وارث کون ہے؟ وہ جو بچپن سے اس میں گھلا ملا ہے، یا وہ جو برسوں کی محنت کے بعد اس کے اصول سیکھ کر اسے برتنے کی کوشش کر رہا ہے؟ خود سیکھنے والے کا کہنا ہے کہ وہ "اصلی اور خالص” اردو بولتے ہیں، وہی جو لغت میں لکھی ہے، جو گرامر کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔ قدرتی بولنے والا اس دلیل پر صرف ہنستا ہے اور کندھے اچکا کر کہتا ہے،

"او بھائی، اردو ایسے بولی جاتی ہے، زبردستی کی تشریح مت کر!”

خالص اردو! یہ تصور بھی ایک دلچسپ فریب ہے۔ زبان تو وہی ہوتی ہے جو لوگوں کی بول چال میں زندہ ہو، جو گلیوں، بازاروں، اور چائے خانوں میں سنی جائے۔ مگر خود سیکھنے والے اسے خالص رکھنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ ہر جگہ غلطیاں نکالتے ہیں، ہر جملے کی تصحیح کرتے ہیں، اور ہر گفتگو میں زبان کے اصولوں کی پاسداری کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قدرتی بولنے والا کہے،
"یہ بندہ بڑا چکنا ہے!” تو فوراً اعتراض آئے گا،
"براہ کرم، یہ اردو نہیں، روزمرہ کی غیر مہذب زبان ہے۔” حالانکہ اصل زبان وہی ہوتی ہے جو عوام کے لبوں پر ہوتی ہے، وہ نہیں جو صرف کتابوں میں قید ہو۔

یہی وہ فرق ہے جو زبان کو زندہ رکھنے اور اسے محض ایک مضمون بنانے کے بیچ آتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) بھی اس بات پر زور دیتی ہے کہ کسی زبان کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے فطری بولنے والوں کا وجود ضروری ہے۔ کیونکہ جب زبان کو صرف تعلیمی نصاب کا حصہ بنا دیا جائے تو وہ ایک مضمون تو بن سکتی ہے، مگر زندہ نہیں رہتی۔

ذرا تصور کریں کہ اگر اردو صرف ان ماہرین کے حوالے کر دی جائے جو اسے اصولی طور پر برتنا چاہتے ہیں، تو محبت کا اظہار بھی کچھ یوں ہوگا:

"محترمہ، میں آپ سے قلبی وابستگی محسوس کرتا ہوں، براہِ کرم اس تعلق کو رسمی طور پر توثیق دیجیے!”

جبکہ ایک عام اردو بولنے والا بس ہنستے ہوئے کہے گا:

"یار، مان جاؤ نا، سچ میں پیار کرتا ہوں!”

یہی اصل فرق ہے۔ زبان کے قواعد ضرور سیکھے جا سکتے ہیں، لیکن اس کی بے ساختگی، روانی اور مٹھاس صرف وہی جان سکتا ہے جو اسے روزمرہ کی زندگی میں برتتا ہے۔

شہر کے ایک ادبی کلب میں دو افراد آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک، پروفیسر صاحب، جو اردو کے گرامر کے ماہر تھے، اور دوسرے ایک نوجوان شاعر، جو چائے کی میز پر بیٹھ کر اشعار کہنے کا عادی تھا۔ محفل جمی تو پروفیسر صاحب نے بات شروع کی،

"ہمیں زبان کو اس کے خالص اصولوں کے مطابق برتنا چاہیے۔ محاورے وہ استعمال کرنے چاہییں جو لغت میں درج ہیں، نہ کہ وہ جو عوام نے اپنے اندازے سے بنا لیے ہیں۔”

نوجوان شاعر مسکرایا اور بولا، "استاد جی، زبان وہی ہے جو بولی جاتی ہے۔ اگر آپ صرف لغت کو دیکھیں گے تو زبان مصنوعی ہو جائے گی۔”

پروفیسر صاحب نے چشمہ درست کیا، "مگر جو کچھ عوام بولتی ہے، وہ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا۔ زبان کے اصول ہوتے ہیں۔”

نوجوان نے مسکراتے ہوئے چائے کی پیالی اٹھائی اور بولا، "استاد جی، اصول اپنی جگہ، لیکن محبت میں اصول نہیں ہوتے، زبان میں بھی نہیں۔ آپ اگر زبان کو کتابوں میں قید کر دیں گے تو وہ صرف لکھی جائے گی، بولی نہیں جائے گی-”

محفل میں ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر کسی نے ہلکی سی سرگوشی میں کہا، "شاید بات میں وزن ہے!”

یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔ کتابوں میں لکھی اردو اور گلیوں میں بولی جانے والی اردو کے بیچ کشمکش کبھی ختم نہیں ہوگی۔ مگر ایک بات طے ہے: زبان کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے بولنے والوں کی فطری روانی میں چھوڑ دیا جائے، نہ کہ صرف تعلیمی ماہرین کے حوالے کیا جائے جو اسے گرامر کی کتابوں تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔

اور شاید یہی وہ فرق ہے جو زبان کو زندہ رکھتا ہے!

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button