بلاگزعوام کی آواز

جھوٹے الزامات اور قتل: ڈرامہ ‘تن من نیل و نیل’ نے کس طرح اس تلخ حقیقت کی عکاسی کی

حمیراعلیم

تن من نیل و نیل ایک لائٹ سا ڈرامہ تھا مگر اس کا اختتام بے حد منفرد اور غیر متوقع تھا۔ سلام ہے ڈرامے کے مصنف کو اور ٹی وی چینل والوں کو جنہوں نے اس موضوع پر آواز اٹھائی اور عوام کو آگاہی دینے کے لئے یہ جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ ورنہ تو الیکٹرانک میڈیا پر بس گھسے پٹے موضوعات سسرال کی سازشوں، بہو کے مظالم یا لو اسٹوری کے سوا کچھ دکھایا ہی نہیں جاتا۔

ہیرو ایک فنکشن میں ناچ رہا ہوتا ہے۔ ہیروئین کا سابقہ منگیتر ، جو خود ایک غنڈا ہے، ہیرو سے حسد کرتا ہے کیونکہ ہیروئین اس سے شادی کرنے والی ہوتی ہے۔ وہ وہاں آ کر چلانے لگتا ہے کہ ناچنا حرام ہے اور ہیرو کی ایک ویڈیو اسکرین پر چلا دیتا ہے جس میں وہ کسی گردوارے میں ناچ رہا ہوتا ہے۔ مہمان گردوارے اور مسجد میں فرق نہیں کر پاتے اور غنڈے کے یہ کہنے پر کہ ہیرو نے مسجد میں ناچ کر اس کی توہین کی ہے، بنا سوچے سمجھے اسے مارنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں  غنڈا انہیں کلہاڑیاں، برچھیاں پکڑا دیتا ہے۔ ہجوم ہیروئین، ہیرو اور اس کے دوست کو قتل کر دیتے ہیں۔ جبکہ غنڈے کا والد جو کہ ہیروئین کا تایا بھی ہے انہیں بچاتے ہوئے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں جس طرح سے مذہب کے نام پر جوڑ توڑ کی جاتی ہے استحصال ہوتا ہے، آخری قسط میں بس ایک سین میں بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس سین کو دیکھتے ہوئے توہین مذہب کے جھوٹے الزام کی پاداش میں قتل کئے گئے سب لوگوں کے خیالات، احساسات اور خوف کو محسوس کر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

اگرچہ یہ معلوم تھا کہ یہ محض ایک ڈرامہ ہے مگر میرا جی چاہا کاش میں ان واقعات کے وقوع پذہر ہونے کے وقت وہاں موجود ہوتی اور کسی بھی طرح سے ان مقتولین کو بچا لیتی خواہ اس میں میری اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جاتی۔ کاش میں جذبات میں گم اور عقل سے عاری ہجوم کو ہوش دلا سکتی۔ جن لوگوں کو اس ڈرامے کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا گیا وہ واقعی اس کے مستحق تھے ۔

مشال خان، سری لنکن مینیجر، سیالکوٹ کے دو حفاظ قرآن بھائی ہوں یا اقلیتی برادری کے وہ لوگ جنہیں توہین مذہب کے نام پر زندہ جلا دیا گیا سب روز قیامت یقینا رب سے یہ سوال ضرور کریںگے کہ کیا ہم تیری مخلوق نہیں تھے کہ تو نے ہم معصوموں کو ایسے درندوں کے حوالے کر دیا جنہوں نے ہمارے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے۔ کیا تو نے انہیں یہ حکم دیا تھا کہ اپنی انا کی تسکین کی خاطر جھوٹا الزام لگا کر کسی کی بھی جان لے لینا؟ ذرا سوچیے جن لوگوں نے ان بے گناہ لوگوں کو اس بے دردی سے قتل کیا کہ ان کے پیارے ان کی لاشیں دیکھنے کی بھی تاب نہ لا سکے رب کائنات کے غضب کے سامنے کیسے ٹھہریں گے۔

پاکستانی قوم نہ صرف دنیاوی لحاظ سے جاہل ہے بلکہ مذہب کے معاملے میں بھی چٹی ان پڑھ ہے۔ اس کا ثبوت سوشل میڈیا پر خدیجہ، عائشہ رضی اللہ عنہما کی سلائی مشینوں، نبیﷺکے تین گز لمبے 4 انچ موٹے بالوں کی لٹ، ان سے منسوب کئے گئے کپڑوں، جوتوں، ضعیف احادیث پر سبحان اللہ ماشاء اللہ کی کثیر تعداد ہے۔

ہم تو اس قدر کم عقل ہیں کہ خود خواہ مذہب پر عمل بھی نہ کریں کہ پانچ وقت کی نماز بھی نہ پڑھتے ہوں لیکن کوئی عربی حروف تہجی والے کپڑے پہن لے تو اسے گستاخ مذہب کہہ کر قتل کرنے پر تل جاتے ہیں۔ کسی سے جھگڑا ہو جائے تو اس پر یہ الزام دھر کر اسے سربازار اس بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں کہ چنگیز خان اور ہٹلر کی روح بھی کانپ اٹھے۔ اور پھر دعوے دار ہیں عاشق رسول ﷺ ہونے کے۔

رسول اللہ ﷺ نے تو جنگ میں بھی غیر مسلموں کے مثلنے کا حکم نہیں دیا تھا کجا کہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو ایسے مارا جائے کہ ان کی آنکھیں نکال لی جائے، زبان اور دیگر اعضا کاٹ کر اینٹیں مار مار کر لاش مسخ کر کے سر بازار لٹکا دی جائے۔ وہ تو ایسی ہستی تھے جنہوں نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کیا اور ایسے معاف کیا کہ ان کے گھروں کو بھی پناہ گاہ قرار دیا۔ اور ایک ہم ہیں جو ایسے جلاد بن گئے ہیں جو کسی کو بھی ماورائے عدالت سزا سنا دیتا ہے۔ کاش کوئی میرے ہم وطنوں کو اتنا دنیاوی و دینی علم و شعور ہی دے دے اندھا دھند تقلید کی بجائے ذرا سا دماغ استعمال کر کے صبر و تحمل سے کام لے کے تحقیق کے بعد کوئی قدم اٹھائیں۔

اور اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو کم از کم قتل جیسا قبیح فعل کر کے اپنی آخرت تو خراب نہ کریں۔ دین کے نام پر جھوٹا الزام لگا کر بلا تحقیق قتل کرنا عوام کا کام نہیں نہ ہی یہ کسی کے سچے اور باعمل مسلمان ہونے کا ثبوت پے۔ یہ سراسر کبیرہ گناہ ہے اور اس پر قصاص کی حد واجب ہوتی ہے۔ اس لئے اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس بارے میں قرآن حدیث، پاکستان کے پینل کوڈ کے قوانین سے آگاہ کیا جائے۔ مگر افسوس ہمارے ہاں جن موضوعات پر لکھنا چاہیئے انہیں ٹیبو قرار دے کر ان پر بین لگا دیا جاتا ہے اور جن پر بین لگنا چاہیئے انہیں رائج کیا جاتا ہے۔

اللہ کا واسطہ ہے بھیڑ بکریوں کی طرح اندھی تقلید سے پرہیز کیجیئے۔ جب ایک بکری کسی سمت چلتی ہے اور ممناتی ہے تو باقی سب بنا سوچے سمجھے اس کے پیچھے ممناتی ہوئی چل پڑتے ہیں۔ ہم انسان ہیں اشرف المخلوقات اسی وجہ سے بنے تھے کہ ہمیں علم تھا ورنہ تو جانور پرندے اور کائنات کی ہر چیز اللہ کے احکام کی پابند تھی ہماری تخلیق کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بندر جتنی اچھی نقالی کرتے ہیں اس کا کوئی ثانی ہی نہیں۔ اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیجیئے۔علم حاصل کیجئے اس کے لئے ضروری نہیں کہ کسی ادارے میں بڑے بڑے ماہرین سے پڑھ کر ڈگری ہی لی جائے۔ علم کتب میں موجود ہے بس انہیں کھولنا پڑھنا اس پر عمل کرنا شرط ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button