بلاگزعوام کی آواز

کیا لباس میں چھپی ہے کامیابی؟

تحریر: رعناز

عورتیں ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ چاہے وہ دفتر ہو، تعلیمی ادارہ ہو یا کوئی اور پیشہ ورانہ میدان، خواتین نے اپنی محنت، عزم اور صلاحیتوں سے جگہ بنائی ہے۔ لیکن ان کے کام کرنے کے راستے میں کئی مشکلات اور چیلنجز ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ خواتین کے لباس پر مذاق اُڑانا یا انہیں اپنے لباس کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔

کچھ دنوں پہلے میں ایک لڑکی سے ایک گورنمنٹ سکول میں ملی جہاں پر وہ ٹیچر کے طور پر کام کیا کرتی ہے۔ میں جب اس لڑکی سے ملی اور میں نے اس کو دیکھ کے غور کیا تو وہ باقی ٹیچرز سے بالکل مختلف تھی۔ نہ صرف ڈریسنگ میں بلکہ خود اعتمادی بھی۔ وہ ٹیچر باقی ٹیچرز اور یہاں تک کہ اسکول کے سٹوڈنٹس سے بھی ڈری سہمی رہا کرتی تھی۔

وہ ٹیچر مجھے ہمیشہ عبایا میں نظر آیا کرتی تھی ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ آخر آپ اتنی چپ چپ اور ڈری سہمی کیوں رہتی ہے۔ اس لڑکی نے بتایا کہ میں اس سکول میں ٹیچر کے طور پر کام کرتی ہوں مگر یہ بہت ہی بڑا سکول ہے اور یہاں کے ٹیچرز بہت ہی اچھے اچھے کپڑے پہن کر آتی ہے۔ یہاں کے سٹوڈنٹس بھی اچھے کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کی ڈریسنگ کے سامنے میرے عام سے کپڑوں کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی اس لئے میں زیادہ تر عبایہ پہن کر آتی ہوں تاکہ میرے کپڑے ان کو نظر نہ آئے۔ کیونکہ یہاں پر زیادہ تر میرے کپڑوں کو لے کر میرا مذاق اڑایا جاتا ہے یہاں تک کہ میرے عام اور سادہ کپڑوں کی وجہ سے یہاں کے لوگ میرے کام پر بھی شک کرتے ہیں کہ جیسے میرے کپڑے ٹھیک نہیں ہیں اس طرح سے مجھے کام بھی نہیں آتا ہوگا۔

اس لئے میں ہمیشہ ان لوگوں سے الگ تھلگ اور ڈری سہمی رہتی ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ میرے کام پر کوئی سوال اٹھائے۔ اس ٹیچر کی یہ باتیں سن کر تو مجھے بہت ہی زیادہ افسوس ہوا۔ پتہ نہیں کیوں ہم لوگوں کی سوچ صرف کپڑوں اور فیشن تک ہی محدود ہے؟ پتہ نہیں کیوں ہم کام کی جگہ میں کسی کی مجبوری کو نہیں سمجھتے؟ بلکہ ہمیشہ اس کی مجبوری کو لے کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسے ہمیشہ تنگ کرتے ہیں۔ اس کی ڈریسنگ کو مذاق کا موضوع بنا کر اس پر ڈسکشن کرتے ہیں۔ افسوس اور نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔

یہ ایک بدقسمتی ہے کہ بہت سی خواتین کو اپنے کام کی جگہ پر اپنی غریب یا سادہ ڈریسنگ کی وجہ سے مذاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آئیے اس پر تھوڑی سی بات کرتے ہیں۔

پاکستان میں، خاص طور پر یہ بات عام ہے کہ عورتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے کردار بلکہ اپنے لباس اور شخصیت میں بھی ایک مخصوص معیار پر پورا اتاریں۔ جب کوئی عورت اس معیا ر  کے مطابق نہیں چلتی، تو اسے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اگر کسی خاتون کا لباس زیادہ سادہ یا معمولی ہو، تو اسے بعض اوقات ‘غریب’ یا ‘غیر پُر کشش’ قرار دے کر اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی روایات میں خواتین کی ظاہری شکل و صورت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اور لباس کو ایک نمایاں علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

آفسز میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں اکثر زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب بات ان کے کپڑوں اور ظاہری طور پر پیش آنے کی ہو۔ یہ نہ صرف انسان کی اپنی ذات پر  بلکہ جاب پر اثر انداز ہونے والی ایک بڑی تفریق بھی ہے۔

بعض اوقات عورت  کو یہ سوچ کر مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ "پروفیشنل” نہیں دکھائی دیتی۔ اس کے نتیجے میں اس کا اعتماد متاثر ہوتا ہے اور وہ خود کو کم تر سمجھنے لگتی ہے۔

پاکستان میں خواتین کے لیے معاشی حیثیت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بہت ساری خواتین جو کم وسائل والے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں، انہیں کام کی جگہ پر اپنی معاشی حالت کی بنا پر مذاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان خواتین کے لیے اچھے معیار کے کپڑے خریدنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔

مگر ان کے لباس کا معیار انہیں ذاتی طور پر متاثر کرتا ہے اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ ان کے تعلقات میں خلل ڈال سکتا ہے۔ جب ایسی خواتین اپنے محدود وسائل کے باوجود محنت کرتی ہیں، تو ان کے لباس پر مذاق اُڑایا جانا ان کے لئے مزید ذہنی دباؤ پیدا کرتا ہے۔

عورت کی ڈریسنگ پر انہیں  مذاق کا نشانہ بنانا انہیں نفسیاتی طور پر بری طرح  متاثر کرتا ہے۔ جب کسی عورت  کو اس کی ڈریسنگ یا لباس کی وجہ سے مذاق کا سامنا ہوتا ہے، تو اس کی خود اعتمادی کم ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال اس کے ذہنی سکون اور پیشہ ورانہ کارکردگی پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے بجائے اپنے لباس پر زیادہ توجہ دینے لگتی ہے، جو اس کی صلاحیتوں کے مکمل اظہار میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

اس مسئلے کا حل صرف معاشرتی رویوں کی تبدیلی اور آگاہی سے ممکن ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ خواتین کی صلاحیتیں اور محنت ان کے لباس سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ خواتین کو اپنے انتخاب کے لباس پر فخر محسوس کرنا چاہیئے، چاہے وہ غریب ہوں یا امیر، سادہ ہوں یا رنگین۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر خاتون کو اپنی ذات اور شخصیت کے مطابق جینے کا حق حاصل ہے۔

ورک پلیس میں صنفی امتیاز کے خاتمے کے لئے کمپنیوں کو ایسی پالیسیاں اپنانا ہوںگی جو خواتین کی محنت اور صلاحیتوں کو اہمیت دیں، نہ کہ ان کی ظاہری شکل کو۔ جب تک ہم معاشرتی روایات اور ذہنیت میں تبدیلی نہیں لاتے، تب تک خواتین کو اپنے لباس کی وجہ سے مذاق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button