ریحان زیب: ایک سال پورا ہوا لیکن قاتل آج بھی قانون کے شکنجے سے باہر ہیں!
بزدل دشمن نے دلیل کے بجائے خنجر استعمال کیا اور 31 جنوری 2024 کو باجوڑ کے صدر مقام خار سے چند قدم کے فاصلے پر صدیق آباد پھاٹک بازار چوک میں انہیں شہید کر دیا۔
31 جنوری کو علامہ اقبال ایئرپورٹ لاہور پر یورپ جانے والے چند عزیزوں کو رخصت کر رہا تھا؛ ساتھ بچے بھی تھے اس لیے امیگریشن کلیئر ہونے تک دوڑ دھوپ میں لگا رہا کہ اچانک سے موبائل پر کالز آنا شروع ہو گئیں۔ سکرین پر بہت ساری مس کالز دیکھ کر بے چین ہونے لگا، ”اللہ خیر کرے!” کال کرنے والے زیادہ تر میڈیا سے وابستہ افراد یا دوست احباب تھے۔ اتنے میں پریس کلب سے کال آئی۔ “ہیلو! ریحان زیب خان شہید ہو گیا ہے۔” یہ سن کر میرے پیروں تلے سے جیسے زمین کھسک گئی۔ آنکھوں سے بے دریغ آنسو بہنے لگے۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہنستا مسکراتا وہ نڈر جوان، جس نے اپنی زندگی کی صرف بیس پچیس بہاریں دیکھی تھیں، ہم سے جدا ہو گیا۔
ریحان زیب خان شہید سے میرا تعلق غالباً سن 2016 میں بنا جب انھوں نے فیس بک پر سابقہ فاٹا اور ایف سی آر کے حوالے سے اپنی ایکٹیویٹیز شیئر کرنا شروع کیں لیکن پہلی ملاقات سات سال قبل باجوڑ پریس کلب میں ہوئی۔ پھر اس کے بعد مختلف پروگراموں میں ملنا جلنا رہا۔
ریحان زیب خان ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ نڈر اور بے باک سیاسی ایکٹیویسٹ تھے۔ انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے سیاست یا جس پلیٹ فارم پر بھی قدم رکھا اس کی بلندیوں کو چھو لیا۔ بار حق گوئی کی بنا پر آپ کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا؛ طرح طرح سے ڈرایا دھمکایا گیا لیکن آپ نے حق گوئی کا سفر جاری رکھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیاء کی سب سے بڑی چلغوزہ منڈی کی رونقیں ماند پڑ گئیں مگر کیوں؟
جس دور میں سابقہ فاٹا میں ایف سی آر کے کالے قانون کے باعث بولنا تک جرم تھا اُس دور میں ریحان زیب خان نے مظلوموں کے لیے صدا بلند کی۔ آپ نے شام، فلسطین، برما، افغانستان اور کشمیر کے مظلوموں کے لیے بھی سوشل میڈیا پر آواز بلند کی۔ قبائلی اضلاع کے عوام اور طلباء کو درپیش مسائل بالخصوص ایف سی آر کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا۔
ریحان زیب ایک سچا پاکستانی تھا جس نے ہمیشہ اپنے قلم سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی؛ کسی کی پرواہ کیے بغیر ہمیشہ سچ لکھتا اور بولتا رہا، کئی ایک رہبروں کو جو رہزنوں کے بھیس میں تھے، انہیں ایکسپوز کیا، پارٹی قیادت اور کرپشن کے خلاف اپنی پارٹی کی حکومت میں دھرنا دیا جس کی وجہ سے کئی بار غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے بھی طنز کے نشتر برداشت کیے۔
ریحان زیب خان نے برملا کہا کہ اسے یقین ہے کہ وہ مارا جائے گا۔ ایک خطاب ان کا حق گوئی کا استعارہ بن گی: "مجھے مار کر تم لوگوں کو ملے گا؟ میرا تو اپنا ذاتی گھر بھی نہیں؛ گاڑی نہیں، کچھ بھی نہیں صرف بوڑھے ماں باپ ہیں۔” ایک بار کسی نے احتیاط کا کہا تو مسکرا کر کہنے لگے: ”ایسا نہیں ہو گا! مجھے یقین ہے کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ آ کر رہے گی۔”
علاقے، اور نوجوانوں کے حقوق، دفاع پاکستان اور حق گوئی آپ کا جرم ٹھہرا۔ بزدل دشمن نے دلیل کے بجائے خنجر استعمال کیا اور 31 جنوری 2024 کو باجوڑ کے صدر مقام خار سے چند قدم کے فاصلے پر صدیق آباد پھاٹک بازار چوک میں انہیں شہید کر دیا۔
ریحان زیب کی شہادت کی خبر سن کر مجھ سمیت جہاں ان کے دوست احباب اور رفقاء غم سے نڈھال ہوئے وہیں ریحان زیب سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی غمگین نظر آئے۔ نماز جنازہ آبائی گاؤں شاہ نرے میں ادا کی گئی جو قبائلی ضلع باجوڑ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ثابت ہوا۔ انہیں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ تعالی ریحان زیب خان کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے! ایک سال پورا ہوا لیکن قاتل آج بھی قانون کے شکنجے سے باہر ہیں۔
ریحان زیب کون تھا؟
‘شہید ریحان زیب نے باجوڑ میں یوتھ آف باجوڑ کی بنیاد رکھی جس کے وہ تادم مرگ سربراہ رہے۔ ان کا شمار پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ نوجوان رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ عدالتی حکم کی وجہ سے پی ٹی آئی پر پابندی کے باوجود ریحان زیب شہید باجوڑ سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ ٓ 8 فروری 2024 کے انتخابات میں پہلی بار حصہ لیا۔ این اے 8 اور پی کے 22 کیلئے آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مبارک زیب خان نے ان کی جگہ الیکشن لڑا اور بھاری مارجن سے دونوں سیٹیں جیت لیں، بعدازاں صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی۔