باڑہ کے ریڑھی بان تجاوازت مخالف آپریشن سے پریشان!
ریڑھی بان کی تو زندگی ویسے بھی انتہائی سخت؛ صبح سے رات گئے تک کھلے آسمان تلے کھڑے رہتے، گرمی ہو یا سردی دونوں جھیلتے، اور پاس مستقل جگہ نہ ہو تو ریڑھی لے کر در در کی خاک چھانتے گھر والوں کے لیے روزی کماتے ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے، بلکہ سچ کہوں تو جب سے باڑہ بازار میں تجاوزات کیخلاف آپریشن ہوا ہے تب سے ایک طبقہ مسلسل میرے ذن پے سوا ر ہے، اور وہ ہیں ہمارے ریڑھی بان بھائی! ناصر کاظمی صاحب ہی کا شعر ہے غالباً۔۔ کہ
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
اللہ آپ کو، ہم سب کو ایسے دن نہ دکھائے لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ ملک عزیز میں بالعموم، اور باالخصوص خیبر پختونخوا اور ضم اضلاع کا ہر دوسرا تیسرا گھر محولہ بالا شعر کا نمونہ بنا ہوا؛ وجوہات مختلف لیکن نتیجہ تقریباً یکساں، اداسی ہر سو پھیلی ہوئی ہے۔ کسی کا کوئی پیارا شدت پسندی کا شکار تو کوئی اپنے پیاروں کی دید کا پیاسا۔ ایک عفریت ایسی ہے جس نے انت مچا رکھی ہے؛ اور اس کا نام ہے غربت۔۔۔ انسانوں کو کئی طرح کے سمجھوتوں پر مجبور، اور طرح طرح کے جرائم پر آمادہ کرتی ہے۔ اب اللہ ہی جانے کہ باڑہ بازار میں تجاوزات، بلکہ اب تک کے اِس ریڑھی بان مخالف، اور نام نہاد آپریشن سے کون کتنا، اور کیسے متاثر ہوا۔
ریڑھی بان کی تو زندگی ویسے بھی انتہائی سخت؛ صبح سے رات گئے تک کھلے آسمان تلے کھڑے رہتے، گرمی ہو یا سردی دونوں جھیلتے، اور پاس مستقل جگہ نہ ہو تو ریڑھی لے کر در در کی خاک چھانتے گھر والوں کے لیے روزی کماتے ہیں۔
پھر بھی باڑہ بازار میں تجاوزات مخالف آپریشن کا پہلا مرحلہ، یعنی مائنس ریڑھی بان، مکمل کیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریڑھی بانوں کو شکوہ اور یہ الزام عائد کرنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا کہ آپریشن خاص طور پر ان کے خلاف، اور انہی تک محدود ہے۔ اگرچہ انتظامیہ کا اصرار تھا کہ پہلے مرحلے میں تمام ریڑھی بانوں کو سڑک سے ہٹایا جائے گا؛ ان کو جگہ مہیا کر کےایڈجسٹ کیا جائے گا، اور دوسرے مرحلے میں سڑک پر گاڑیوں کے غیرقانونی سٹینڈز ختم کئے جائیں گے۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ اتمام حجت بھی کہ ”تجاوزات کے مرتکب افراد کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جائے گا”۔ لہٰذا خبردار!
یہ بھی پڑھیں: چارسدہ: مکئی کے مفت تخم نے سیلاب زدہ کاشتکاروں کی محنت پر پانی پھیر دیا
لیکن یہ کیا! آپریشن ہوئے تیسرا ہفتہ ہو چکا، انتظامیہ شاید پہلے مرحلے کی تھکن اتار رہی ہے یا پھر سرے سے بھول ہی چکی ہے کہ اس آپریشن کا دوسرا مرحلہ، بلکہ معرکہ بھی ہے جو اسے سر کرنا ہے۔ اسی تاخیر کا ہی شاید نتیجہ ہے کہ انجمن تاجران باڑہ کے صدر سید ایاز وزیر یہ کہنے پر مجبور ہوئے: "انتظامیہ باڑہ بازار میں تجاوزات کو ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، صرف غریب اور بے یار و مدد گار ریڑھی بانوں کو ہٹا دیا گیا جبکہ ٹیکسی، ڈاٹسن اور دیگر گاڑیوں کے اڈے نما سٹینڈز تاحال قائم ہیں، اگر دو دن میں تجاوزات کو ختم نہیں کیا گیا تو ریڑھی بانوں کے ساتھ مل کر ان کو واپس اپنی پرانی جگہ پر لے آئیں گے۔”
ایاز وزیر کے مطابق یہ قریباً کوئی چھ سو ریڑھی بان ہیں، یعنی انتظامیہ کے اس ایکشن کی وجہ سے کم از کم چھ سو خاندان، یا شاید اس سے بھی زیادہ، متاثر ہوئے، اور متاثر ہو رہے ہیں۔ اب اللہ ہی جانے فی کنبہ افراد کتنے؛ بچے، جوان اور بڑے بوڑھے، کوئی بیمار ہو گا، دوا کی ضرورت ہو گی، بھوک تو سب کی سانجھی ہے۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کوئی اقدام، جس کا دائرہ اثر اتنا وسیع ہو، لینے سے قبل خوب سوچ بچار کی ضرورت یا نہیں؟ کیا انتظامیہ کو اول ان ریڑھی بانوں کیلئے متبادل جگہ کا بندوبست نہیں کرنا چاہیے تھا؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ سڑک کنارے گھر، دکان، اور ریڑھی بان۔۔ یہ ہمارا کوئی اَن لکھا دستور سا نہیں ہے کہ تاجر ہے تو سڑک کنارے دکان پر خوش، اسی طرح مکان پر بھی خوش، اور گاہک ہے یا مشتری تو سڑک کنارے ہی دکان میں ”تاوان” پر خوش!
ویسے باڑہ تو میں گئی نہیں کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بعد کا آنکھوں دیکھا حال شیئر کروں لیکن جانے کیوں لگ مجھے یہ رہا ہے کہ ماضی میں فردوس، ہشتنغری اور اس طرح شہر کے دیگر مقامات پر تجاوزات باالخصوص ریڑھی بانوں کے خلاف دیگر آپریشن۔۔ ریڑھی بانوں کے خلاف کاروائی؛ بازار امیں افراتفری کا سماں، ان کی ریڑھیاں سامان سمیت ضبط، اور پھر وہ جرمانہ بھرنے کی صورت ہی واپس کی جاتی ہیں۔ کبھی ریڑھی بان کا سامان/سودے سے بھری ریڑھی سمیت بھاگنے کی کوشکر ش کرنا، اکثراوقات اسی کوشش میں سامان گر ٹوٹ پھوٹ کا شکار، تازہ پھل اور سبزیاں سڑک پر گرنے سے خراب۔۔ جیسے اِس آپریشن کے بعد بھی افسران اُدھر واپس اپنے دفتر کی آرام دہ چیئر پر تو ادھر ریڑھی بان بھائی، دھوپ ہو یا سایہ، سڑک کنارے واپس کب کے، بلکہ تب کہ ہی آ چکے ہوں گے۔ یہ ایک سائیکل سا بنا ہوا ہے، چل رہا ہے۔
قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ صرف کمزور طبقہ قانون کی گرفت میں ہو یہ سراسر ناانصافی ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ باڑہ بازار ہی نہیں بلکہ ہر بازار میں غریب ریڑھی بانوں کیلئے مخصوص جگہ جیسے خالی پلاٹ وغیرہ فراہم کرے تاکہ سڑکیں بھی صاف ہوں اور ان کا روزگار بھی چلتا رہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں لاکھوں افراد کا روزگار اسی ریڑھی سے منسلک ہے ایسے میں اگر اس پر پابندی لگا دی جائے تو بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔