جنوبی کوریا سے اٹھی ‘فور بی’ تحریک ہے کیا؟
بی یون اے، بی سیکس، بی ہون، اور ''بی چول سان'' اِن چار اصطلاحات/نعروں پر مشتمل یہ جنوبی کوریا کے فیمینسٹ حلقے کی طرف سے شروع کی گئی تحریک ہے جنھوں نے معاشرے میں خواتین کے خلاف نفرت کے جواب میں مردوں کے بغیر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فور بی چار کوریائی اصطلاحات/نعروں کا مخفف ہے: ”بی یون اے” (کوئی ڈیٹنگ نہیں)، ”بی سیکس” (کوئی جنسی تعلق نہیں)، ”بی ہون” (کوئی شادی نہیں) اور ”بی چول سان” (بچے کی پیدائش نہیں)۔ یہ جنوبی کوریا کے فیمینسٹ حلقے کی طرف سے شروع کی گئی تحریک ہے جنھوں نے معاشرے میں خواتین کے خلاف نفرت کے جواب میں مردوں کے بغیر رہنے کا فیصلہ کیا۔
فور بی تحریک اب دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہی ہے۔ اِس تحریک کی حامی خواتین کا خیال ہے کہ مرد انہیں بس جنسی تسکین اور بچے پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں؛ انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان سے بے وفائی کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی انسان ہیں جنہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اس لیے اب وہ کسی مرد سے تعلق رکھیں گی نہ شادی کریں گی اور نہ ہی بچے پیدا کریں گی۔
ہر مذہب خواہ الہامی ہو یا مین میڈ، اس میں شادی کا تصور اس لیے ہے کہ زمین پر امن قائم رہے؛ نسل انسانی کی بقا ہو، اور گھر اور معاشرہ تشکیل پائے۔ کوئی بھی مذہب ہم جنس پرستی یا بدکاری کی نہ اجازت دیتا ہے نہ ہی اسے پسند کرتا ہے۔ لیکن انسان مسلسل پستی میں گرتا جا رہا ہے حتی کہ جانوروں سے بھی بدتر ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مردان: معمولی تکرار پر ماسٹرز کا طالب علم 24 سالہ دوست سمیت قتل
کچھ عشروں قبل شادی کو ختم کر کے کورٹ شپ، ڈیٹنگ کو لیونگ کا نام دے کر مردوزن نے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی؛ بچے پیدا تو کیے مگر نہ باپ نے اپنی کفالت کی ذمہ داری نبھائی نہ ماں نے تربیت کی، مغرب میں فوسٹر چائلڈ، اور فن ایجز تو مشرق میں ‘اِلِلیگل ابارشن’ فلاحی اداروں نے ایسے بچوں کو سنبھالا۔ پھر پارٹنرز سے بے وفائی، ہم جنس پرستی اور جانوروں سے جسمانی تعلق کے ذریعے تسکین چاہی گئی جس کا نتیجہ ٹرانس جینڈر ایڈز کی صورت میں نکلا۔
خواتین نے پہلے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کر کے صرف گھریلو ذمہ داریوں سے آزادی چاہی لیکن اب تو انہیں مدر پدر آزاد زندگی گزارنی ہے جس میں مرد کا ذکر تک نہ ہو۔ اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ کسی بھی مرد سے کسی بھی قسم کا تعلق نہیں رکھیں گی، اور بچے پیدا نہیں کریں گی تو زندگی بڑی پرسکون اورخوشحال ہو گی حالانکہ چین اور کوریا شادی نہ کرنے اور بچہ پیدا نہ کرنے کی پالیسی و رواج کی وجہ سے پہلے ہی خطرے میں ہیں۔
اللہ نے مرد و زن کی تخلیق مختلف اشکال و اجسام میں کی تو اس کی وجہ زندگی میں ان کے مختلف کردار تھے۔ آدم علیہ السلام جنت میں بھی حوا علیہ السلام کے کفیل تھے اور زمین پر بھی ان کی ذمہ داری محنت مشقت کر کے بیوی بچوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت رہی۔ اور عورت کو اللہ نے تخلیق کا شرف بخشا۔
مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی اپنے فرائض سے کوتاہی برتے گا تو اس کی تخلیق کامقصد فوت ہو جائے گا اور زندگی غیرمتوازن اور فساد کا شکار ہو جائے گی۔ جو لوگ شادی نہیں کرنا چاہتے وہ بھی جسمانی تعلق ضرور رکھنا چاہتے ہیں بس کفالت اور تخلیق سے بچنا چاہتے ہیں۔ اور اگر بچے پیدا کر ہی لیں تو ان کی ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتے خصوصاً مرد بچے اور عورت کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے ساتھ زندگی انجوائے کرتا ہے۔
ہم جنس پرست جوڑے بھی ایک مرد اور دوسرا عورت کا کردار ادا کرتے ہوئے میاں بیوی کی طرح رہتے ہیں؛ بچے بھی ایڈاپٹ کرتے ہیں۔ اگر زندگی صنف مخالف کے بغیر ہی اچھی لگتی ہے تو پھر یہ سارے ڈرامے کرنے کا مقصد؟ لوگ کیوں تجرد کی زندگی نہیں گزارتے؟ کیوں خواہش نفس کے غلام بن کر مذہبی و معاشرتی حدود کو توڑتے ہیں؟
انسان جب بھی فطرت کے خلاف جاتا ہے سراسر خسارے کا سودا کرتا ہے اس لیے جلد ہی پچھتاوے کا شکار بھی ہوتا ہے اور نت نئی بیماریوں کے عذاب بھی سہتا ہے۔ امید ہے اب ہماری پاکستانی خواتین ماڈرن بننے کے شوق میں ‘می ٹو’ کی طرح ‘فور بی’ کو فالو نہیں کریں گی اور خاندانی نظام کو تباہ کر کے شیطان کو اس کے چیلنج میں کامیاب ہونے کا ذریعہ نہیں بنیں گی کہ وہ ضرور مخلوق کو خالق کی نافرمانی، اس کی تخلیق بدلنے پر مجبور کرے گا۔
یقین مانیے رب کا نظام ہر کسی کے لیے بہترین ہے اس لیے اپنے چھوٹے سے دماغوں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیے اور سکون سے اپنا اپنا کردار ادا کیجئے۔