بلاگز

”پانی کا کوئی بھی نظام لاس اینجلس کی آگ بجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا!”

وہ سپر پاور جو مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کے لیے بزعم خود خدا بنی بیٹھی ہے اسے خدا نے دکھا دیا ہے کہ اصل سپر پاور کون ہے۔

قدرتی آفات؛ سیلاب، زلزلے، سونامی، جنگلوں میں خودبخود بھڑکنے والی آگ، اور وبائیں کچھ تو گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہیں، کچھ اللہ تعالٰی کے ریمائنڈرز بھی ہیں کہ سپریم پاور میں ہی ہوں اور کوئی نہیں، اور کچھ اس کے عذاب بھی۔ عاد ثمود اور بنی اسرائیل جیسی بڑی بڑی طاقتور اور ہنریافتہ اقوام معمولی آندھی، سیلاب، زلزلے سے صفحہ ہستی سے یوں مٹا دی گئیں کہ ان کی مہارتوں کے آثار آج بھی باقی ہیں لیکن ماہر نہیں بچے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ سب آفات گاہے بگاہے ہی رہتی ہیں۔ تھرڈ ورلڈ کے غریب ممالک کے امیر حکمران خود کو تو محفوظ کر لیتے ہیں لیکن عوام کو اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر جانی مالی نقصان پر افسوس و مذمت کر کے اور عوام کو یہ یاد دلا کر کہ ‘ہر کوئی اپنے وقت پر ہی مرتا ہے، ان کی ایسے ہی آئی تھی، کہہ کر اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں جب کبھی کوئی زلزلہ، سیلاب، وبا، سونامی آتا ہے یا آگ بھڑکتی ہے تو ان کی حکومت کی اولین ترجیح عوام کی حفاظت ہوتی ہے چنانچہ وہ فالس الارم پر بھی فورا وہ علاقہ خالی کروا کر لوگوں کو محفوظ مقام پر پہنچا دپتے ہیں۔ پھر ان کی ضروریات، کھانے پینے، رہائش وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ چونکہ گھر اور ان میں موجود ہر چیز گاڑیاں وغیرہ انشورڈ ہوتی ہیں اس لیے انہیں ان کی دوبارہ تعمیر کے لیے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔

کچھ دیگر اسٹیٹس کی عوام اپنے مصیبت میں گھرے بہن بھائیوں کی مدد دل کھول کر کرتے ہیں جسے ارباب اختیار و اقتدار عوام کی بحالی پر ہی خرچ کرتے ہیں اپنے گھروں ی آرائش پر نہیں لہذا چند ماہ میں پورا شہر پھر سے رواں دواں ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اپیکس کمیٹی کے فیصلوں پر عمل شروع؛ کرم میں فریقین کے دو بنکرز تباہ کر دیئے گئے

لاس اینجلس کے جنگل میں آگ بھڑکی تو حکومت نے فوراً شہر خالی کرنے کی وارننگ دے دی کیونکہ ہوائیں طوفانی رفتار سے چل رہی تھیں اور آگ کے پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ لیکن 3.821 ملین آبادی کا انخلاء اور ان کے لیے محفوظ مقام پر رہائش کا بندوبست آسان کام نہیں خواہ حکومت امریکی ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے امریکہ کتنی ہی بڑی سپر پاور کیوں نہ ہو آج تک کوئی ایسی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں کر سکا کہ کسی قدرتی آفت کا رخ بدل سکے، یہی وجہ ہے کہ لاس اینجلس کی تیز ہواؤں نے آگ کچھ ایسے بھڑکائی کہ 27 ہزار ایکڑ کا رقبہ خاکستر ہو گیا۔ لیکن ا چھی بات یہ ہے کہ 24 یا شاید اس سے کچھ ہی زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ وہ بھی انخلاء میں تاخیر کی بناء پر۔

ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں؛ "دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجنا وی مر جانا اے۔” مجھے اس شہر کے جلنے امریکیوں کے مرنے کی خوشی تو ہرگز نہیں کیونکہ میرے اپنے ملک میں بھی ‘جنگل کی آگ’ لگی ہوئی ہے لیکن اس امریکی بیان کو پڑھ کر کمینی سی خوشی ضرور ہوئی کہ دنیا میں پانی کا کوئی بھی نظام لاس اینجلس کی آگ بجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ سپر پاور جو مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کے لیے بزعم خود خدا بنی بیٹھی ہے اسے خدا نے دکھا دیا ہے کہ اصل سپر پاور کون ہے۔ امریکی اس موسم میں کھلے آسمان کے نیچے چھوٹے خیموں میں بے یارو مددگار چند دن گزاریں گے تو شاید انہیں فلسطینیوں کے کرب کا انداز ہو اور وہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اسرائیل کو سپورٹ کرنا اور فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرے۔ اللہ تعالٰی دنیا بھر کے لوگوں کو ہر آفت و پریشانی سے محفوظ رکھے!

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button