بلاگز

”بعض لوگ ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے ہم خواتین نہیں کوئی اور مخلوق ہیں”

اکثر لوگ ایسے گھور رہے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ کوئی اور مخلوق ہوں حالانکہ ان خواتین کے سر پر ایک مخصوص قسم کی کیپ بھی ہوتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خواتین پولیو ورکرز ہیں۔

سال گزشتہ کے اخیر میں، یا سال نو سے ہفتہ دو قبل، سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ: ”ملک بھر میں 16 تا 22  دسمبر انسداد پولیو مہم کا آغاز کر دیا گیا” دیکھ کر میرا ذہن بے ساختہ خواتین پولیو ورکرز کی جانب مبذول ہوا جو انسداد پولیو مہمات کے دوران مردوں شانہ بشانہ، اور ادائیگی فرائض میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ ان کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان خواتین کو کتنے مسائل درپیش ہوتے ہیں؟ یوں تو وہ انسداد پولیو کے سلسلے میں مختلف فرائض انجام دیتی ہیں مگر آج اس بلاگ میں ان خواتین کا ذکر کیا جا رہا ہے جو بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتی ہیں۔

ایک خاتون پولیو ورکر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا: "ہمارے معاشرے میں مردوں کو گھروں کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے اس وجہ سے خواتین پولیو ورکرز ان کے ہمراہ ہوتی ہیں، اور اسی وجہ سے ہماری تعداد بھی زیادہ ہے۔ مگر ہمارے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ فیلڈ ورک کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے گھروں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ ہماری چھٹی دیر سے ہوتی ہے۔ ہماری تنخواہ بالکل کم ہے جس سے ضروریات زندگی بمشکل پوری ہوتی ہیں۔ اور ہم جہاں بھی جاتے ہیں تو بعض لوگ ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے ہم خواتین نہیں کوئی اور مخلوق ہیں۔”

بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ان خواتین پولیو ورکرز کی واضح اکثریت کا تعلق معاشرے کے پِسے اور کمزور طبقے سے ہوتا ہے؛ سردی ہو یا گرمی 15، 20 ہزار کے عوض گلی گلی، گھر گھر جاتیں، دروازے کٹھکٹھاتیں، اور بچوں کو انسداد پولیو قطرے پلاتیں ہیں۔ بعض گھرانوں میں جلی کٹی باتیں انہیں الگ سے سننا پڑتی ہیں۔ لیکن انہیں ہر حال میں اپنا کام مکمل کرنا ہوتا ہے کیونکہ سپروائزر کی طرف سے ان پر کافی پریشر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرم واقعہ امن معاہدہ سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ محسن نقوی

اس کے علاوہ اکثر دورافتادہ علاقوں میں انہیں جانا پڑتا ہے کافی مشکلات سہہ کر مگر دو روپوں کی خاطر چپ رہتی ہیں۔ ان خواتین کے لیے نہ تو الگ واش رومز ہوتے ہیں دورافتادہ علاقوں میں نہ ہی قیام و طعام کا بندوبست، بس کئی میل سفر کر کے تھکی ہاری گھر جاتیں اور تھوڑا سکھ کا سانس لیتی ہیں اور پھر اگلے دن پھر سے فیلڈ ورک میں مصروف ہو جاتی ہیں۔

اکثر لوگ ان خواتین کو ایسے گھور رہے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ کوئی اور مخلوق ہوں حالانکہ ان خواتین کے سر پر ایک مخصوص قسم کی کیپ بھی ہوتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خواتین پولیو ورکرز ہیں۔

سخت سردی یا کڑی دھوپ کا ان خواتین کے رنگ پر کافی اثر بھی پڑتا ہے مگر کیا کریں جس کے گھر میں بیمار ماں باپ ہوں، کسی کے بچے بھوکے ہوں، کسی کا شوہر معذور ہو اور یا کوئی بیوہ، اور پھر پنچ چھ بچوں کی کفیل بھی، تو پھر بھلا ان تکالیف کی کیا پرواہ، بس اسی محنت و مزدوری کی اجرت لے کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہی ہوتی ہیں۔

آخر میں سب سے یہ درخواست ہے کہ ازراہ کرم ان خواتین کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، ان کو حوصلہ اور ہمت دیں اور ان کے کام کو سراہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جو کم پیسوں میں بہت بڑا عظیم کام کر رہی ہیں۔ دنیا میں صحت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے اور ان کو آپ کے بچوں کی صحت ہی کی فکر رہتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ خواتین پولیو ورکرز کو ٹرانسپورٹ کی سپہولت دے اور، اس سے بھی بڑھ کر، ان کی تنخواہ بھی بڑھائے کہ مہنگائی کا دور ہے اور 20، یا 25 ہزار میں چھوٹے سے چھوٹے کنبے کا بھی گزارہ مشکل نہیں، بلکہ ناممکن ہے کیونکہ اتنے پیسے تو صرف خوراک پر لگ جاتے ہیں جبکہ ہر انسان اور ہر خاندان کی پاپی پیٹ کے علاوہ بھی ضروریات، اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button