2024: کبھی خوشی کبھی غم، مگر یہ تو زندگی کا حصہ ہے!
اس بار سوچا کہ مثبت پہلو پر ہی نظر رکھوں مگر سوائے چند فیلڈز کے ہمارے ہاں کچھ نیا اور مثبت تھا ہی نہیں؛ وہی سیاستدان اور ان کے جھوٹے وعدے، وہی مہنگائی اور عوام کی پریشانیاں، زندگی روز بروز مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے۔
مسلمانوں کا نیا سال تو ویسے محرم سے شروع ہوتا ہے مگر ہم چونکہ شمسی کیلنڈر کو فالو کرتے ہیں اسی لئے دسمبر شمسی سال کے خاتمے کی علامت، تو جنوری سال نو کی شروعات۔
سال 2024 کئی لحاظ سے برا تھا تو کچھ چیزیں اچھی بھی تھیں۔ اس بار سوچا کہ مثبت پہلو پر ہی نظر رکھوں مگر سوائے چند فیلڈز کے ہمارے ہاں کچھ نیا اور مثبت تھا ہی نہیں؛ وہی سیاستدان اور ان کے جھوٹے وعدے، وہی مہنگائی اور عوام کی پریشانیاں، زندگی روز بروز مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے۔ ہاں۔۔۔! پاکستانی ایتھلیٹس نے کئی مقابلوں میں گولڈ اور سلور میڈلز لیے؛ گنییز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام لکھوائے، جبکہ طلباء نے انٹرنیشنل سطح پر مقابلے جیتے حتی کہ ناسا تک پہنچ گئے، اور کئی ایجادات بھی کیں۔
لیکن عالمی سطح پر مہنگائی بڑھی اور اس مہنگائی کا اثر پاکستان پر بھی ہوا۔ عوام بیچاری 275 روپے کا پٹرول؛ 500 پر کلوگرام مرغی، 2200 فی کلوگرام مٹن، 1400 فی کلوگرام بیف/بڑا گوشت، 2700 کا 20 کلوگرام کا آٹے کا تھیلا، 2950 کا گھی آئل، 160 فی کلو چینی، اور 200 کی بریڈ خریدنے سے ہی قاصر تھی کہ ایک نیا مژدہ سننے کو ملا کہ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہونے کو ہے خصوصاً گیس کے بلز میں کیونکہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ گرمیوں میں بجلی ہو یا نہ ہو بل بھاری آتے ہیں؛ اور سردیوں میں گیس نہیں ہوتی لیکن ہر بل ایسے آتا ہے جیسے ہماری فیکٹری ہو۔ چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ 90 یونٹس کا بل 50000 ہو گا اور 91 کا 60000۔ یہ پاکستان میں پیدا ہونے کی سزا ہے۔
مزید پڑھنے کیلئے: تیراہ: ساتھیوں کے مبینہ جنسی تشدد کے باعث ایک عسکریت پسند نے خودکشی کر لی
اگرچہ پہلے ہم ہر سال جون کے بجٹ میں قیمتیں بڑھنے کی توقع رکھتے تھے لیکن اب تو ہفتہ وار مہنگائی بیگم کا قد دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ بڑے بیٹے کے کپڑے لینے کے لیے آن لائن برینڈز کے پیجز چیک کیے تو سیل میں شلوار قمیض 5 سے پندرہ ہزار کے، ٹراوزرز 3500 سے 6000 ، شرٹس اور ہڈز 3000 سے 5000 کے تھے۔ چھوٹے کے شوز دیکھے تو معلوم ہوا جو شوز کبھی 1500 سے 3000 کے تھے اب 5000 سے 18000 کے ہیں۔ بڑے والے کو کپڑے دکھائے تو قیمتیں دیکھ کر کہنے لگا: "ماما اسی طرح قیمتیں بڑھتی رہیں تو جلد ہی پتوں کی نوبت آ جائے گی۔” ذرا سوچیے ہزاروں کے بلز؛ کرائے، بچوں کی فیس اور دیگر اخراجات کے بعد اتنے مہنگے کپڑے جوتے کون خرید سکتا ہے۔
دنیا بھر میں ہر چیز کی طرح اشیائے خوردونوش کے ریٹس بڑھانے کا ایک سسٹم ہے۔ جب کوئی چیز زیادہ مقدار میں استعمال کی جاتی ہے تو قیمت اور بل کم ہو جاتے ہیں۔ مگر پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب ہے اس لیے دودھ والا 200 فی لیٹر دودھ کرے یا پیاز والا 1500 کا 5 کلو پیاز عوام کو بخوشی خریدنا پڑتا ہے کیونکہ پاپی پیٹ کے لیے تو انسان سب کچھ کرتا ہے۔
عالمی سطح پر مہنگائی کا پاکستان کی مہنگائی سے موازنہ کرنے کے لیے نیوزی لینڈ میں موجود بہن اور یو کے میں رہائش پذیر بھائی سے بات کی تو پتہ لگا کہ انہیں جو آئل پہلے 15 پاونڈز اور 25 ڈالرز کا ملتا تھا ابھی 35 اور 80 کا ہے۔ ایک کھیرا 5 ڈالرز کا اور چند ٹماٹر 8 ڈالرز کے ہیں۔ بجلی کا بل ایک لاکھ پاکستانی ہے۔ گیس اور پانی کے بلز بھی 300 ڈالرز سے کم نہیں۔ یہ سن کر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں یوکے یا نیوزی لینڈ میں نہیں ورنہ تو مجھے ہارٹ اٹیک ہی ہو جاتا۔ کیا ہوا جو ہماری اگلی کئی نسلیں آئی ایم ایف کی قرض دار ہیں، آئی ایم ایف کا جتنا اور جب دل چاہے ہمیں ذلیل کر سکتا ہے؛ ہم پر ٹیکسز کی بھرمار کر سکتا ہے۔ ہم دنیا بھر میں فقیر سمجھے جاتے ہیں، لوگ ہمیں صدقہ خیرات زکوۃ بھیجتے ہیں۔ ہمیں گیس، بجلی، پانی، آٹا، چینی، گوشت وغیرہ میسر نہیں، شکر ہے بلز صرف 5 سے 30 ہزار ہی آتے ہیں۔ تو جناب مہنگائی کا بم تو عالمی سطح پر پھوٹ ہی چکا ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بم کے آفٹر افیکٹس بالکل ویسے ہی طویل ہوں گے جیسے کہ ناگاساکی پر امریکن فیٹ بوائے کے تھے۔
اپنی زندگی پر نظر دوڑائی تو سال 2024 بھی بقیہ سالوں کی طرح آزمائشوں سے بھرپور تھا؛ کبھی خوشی کبھی غم کی کیفیت رہی۔ مگر یہ تو زندگی کا حصہ ہے اس لیے الحمدللہ علی کل حال۔ بس دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور 2025 کو خیرو عافیت کا سال بنائے اور پوری دنیا میں امن و امان اور خوشحالی کا دور چلے۔