لنڈا بازار؛ مہنگائی کے اس دور میں جو لوگوں کا بھرم رکھے ہوئے ہیں!
اللہ کرے کہ حکمرانوں کو اس بارے میں خبر نہ ہو کیونکہ جونہی انہیں معلوم ہو گا کہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے انہوں نے اس مارکیٹ پر کئی ٹیکسز لگا کر عوام کو کپڑوں جوتوں سے بھی محروم کر دینا ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں سیکنڈ ہینڈ کپڑوں، جوتوں، برتنوں حتی کہ مشینری تک کی مارکیٹس ہیں جنہیں فلیی مارکیٹس کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں انہیں لنڈا بازار کہا جاتا ہے۔ کراچی کے اتوار بازار اور لائٹ ہاوس میں تو ایسے بڑے بڑے برانڈز موجود ہیں کہ سیلیبرٹیز بھی وہاں سے خرید کر شیخی بگھارتے ہیں کہ بیرون ملک سے لائے ہیں۔ اسلام آباد راولپنڈی میں بھی مختلف دنوں میں یہ بازار سجتے ہیں۔
کوئٹہ میں اسے کباڑی یا نیٹو مارکیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں نہ صرف نیٹو کے لوٹے گئے ٹرکوں کا سامان بلکہ سیکنڈ ہینڈ اشیاء بھی دستیاب ہیں۔ سولہ سال پہلے ڈبل روڈ پر کچی دکانوں سے بنی دو گلیاں تھیں پھر آتشزدگی کی وجہ سے سارا بازار جل گیا؛ اب یہاں 500 سے زائد کنکریٹ کی دکانوں پر مشتمل بہت بڑی مارکیٹ بن چکی ہے جہاں برانڈز کے نئے اور سیکنڈ ہینڈ کپڑے، ڈیکوریشن پیسز، برتن، مشینری، کچن، لانڈری، ہوم اپلائنسز، سائیکلز، اور بکس سمیت بہت سی اشیاء دستیاب ہیں۔
میں نے اس مارکیٹ سے کئی بار ڈیکوریشن پیسز، پائریکس کے برتن، استریاں، انگلش کی کتب بچوں کے شوز، بیگز اور میک اپ پراڈکٹس خریدے کیونکہ یہاں یہ سب چیزیں نہایت سستی اور نئی مل جاتی تھیں جب کہ وہی چیزیں میرے بہن بھائی بیرون ملک سے کئی سو پاونڈز ڈالرز کی لاتے ہیں۔ شاید اس وقت دکان داروں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ برانڈز کتنے مہنگے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کرم: نئی پولیس چیک پوسٹوں سمیت دو ایف سی پلاٹونز تعینات کرنے کا اعلان
چند دن پہلے چھوٹے بیٹے کے شوز لینے کے لیے کانسی روڈ پر واقع شو مارکیٹ کا رخ کیا جہاں پرانے اور نئے ہر برانڈ کے شوز ملتے ہیں تو دبئی پلازہ سے مصطفی پلازہ تک اس قدر رش تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی لہذا بیٹے سے کہا کہ وہیں ڈراپ کر کے واپس چلا جائے۔ جب مارکیٹ میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ لوگ گرم کپڑے خرید رہے تھے۔ شوز مارکیٹ میں جو شوز مجھے پسند آ رہے تھے نائیکی، پوما، سکیچرز ، ایڈیڈاس, ری باک، اور پلے بوائے کے جو کبھی 1500 سے 2500 میں مل جاتے تھے اب 3500 سے 15000 کے مل رہے تھے۔ دکان داروں سے مہنگے جوتوں کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ یہ برانڈڈ اور نئے ہیں۔ کہا کہ بھئی پہلے بھی برانڈڈ اور نئے ہی لیتے تھے مگر اب تو آپ نے پاکستانی برانڈز سے بھی مہنگے شوز لگا رکھے ہیں۔ فرمانے لگے کیا کریں جی ہمیں بھی مہنگے ہی مل رہے ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ کراچی کے تجار کوئٹہ کی نیٹو مارکیٹ کا سن کر اب یہاں سے سستے داموں چیزیں خرید کر کراچی لے جاتے ہیں جہاں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اس لیے اب یہاں کے دکان دار بھی برانڈز سے واقف ہو چکے ہیں۔ نئے جوتوں کی قیمتیں دیکھ کر سمجھ آئی کہ لوگ سیکنڈ ہینڈ چیزیں کیوں خرید رہے ہیں۔
دنیا بھر میں فلیی مارکیٹس اور گیراج سیلز غریب سفید پوش لوگوں کے لیے نعمت سے کم نہیں جہاں سے لوگ ضرورت کا سارا سامان سستے داموں خرید سکتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی مہربانی سے اب پاکستان میں اس قدر مہنگائی ہو چکی ہے کہ سفید پوش طبقہ تو لنڈے سے مستفید ہوتا ہی ہے اب تو بڑی بڑی گاڑیوں والے بھی یہاں سے خریداری کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ پاکستانی برانڈز کے شلوار قمیض، اور جیکٹس سیل میں 5 سے 15000 کے، ٹروازرز اور شرٹس 3 سے 5 ہزار کے اور بیگز جوتے بھی ایسے ہی مل رہے ہیں۔ ہوم اپلائنسز کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں حالانکہ کوالٹی نہایت ناقص ہوتی ہے۔
جب اسی رینج میں انٹرنیشنل برانڈز کی نئی چیزیں مل رہی ہوں تو بندہ انہیں ترجیح کیوں نہ دے۔ جن لوگوں کی استطاعت نہیں وہ سیکنڈ ہینڈ چیزیں خرید لیتے ہیں جو اچھی کنڈیشن میں ہی ہوتی ہیں۔ ہمارے میاں صاحب نے بھی ایک سیکنڈ ہینڈ فریج خرید کر گھر لے آئے کہ سستی مل رہی تھی صرف 15 ہزار میں۔ فریج بالکل نئی اور صاف ستھری تھی مگر ہم پاکستانیوں کے لیے نہیں تھی کیونکہ ہم تو عادی ہیں بڑی بڑی دیگچیوں اور کنٹینرز میں چیزیں اور کم از کم پانچ چھ بڑی بوتلیں پانی کی فریج میں رکھنے کے۔ لہذا اسے واپس کروا کر ڈاولینس کی لارج سائز فریج لے لی۔ لیکن لوگوں کے گھروں میں مائیکرو ویو اوون، سلائی واشنگ مشینز، سائیکلز، کچن اپلائنسز دیکھے ہیں جو نئے لیے جائیں تو نہایت قیمتی ہوں گے لیکن سیکنڈ ہینڈ چند ہزار میں مل جاتے ہیں۔
مہنگائی کے اس دور میں فلیی مارکیٹس کئی لوگوں کا بھرم رکھے ہوئی ہیں۔ اللہ کرے کہ حکمرانوں کو اس بارے میں خبر نہ ہو کیونکہ جونہی انہیں معلوم ہو گا کہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے انہوں نے اس مارکیٹ پر کئی ٹیکسز لگا کر عوام کو کپڑوں جوتوں سے بھی محروم کر دینا ہے۔