بلاگز

سخت سردی میں سکول کالج نہیں جا سکتے تو مری کیسے چلے جاتے ہیں؟

گرمی ہو یا سردی ہم میں سے اکثر لوگ اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ سیروتفریح یا قیام کی غرض سے دوسرے شہر میں موجود رشتے داروں یا تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔

لوگوں کو گلہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں سردیوں کی چھٹیاں اس وقت ختم ہو جاتی ہیں جب سردیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کا سہرا بھی حسب معمول گورنمنٹ کے سر سجایا جا رہا ہے کہ گورنمنٹ لکیر کی فقیر ہے صدیوں سے چھٹیوں کا ایک وقت مقرر ہے اور انہی دنوں میں چھٹی دی جاتی ہے خواہ سردی ہو یا نہ ہو۔ اور محکمہ تعلیم کی نااہلی کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ گورنمنٹ ہو یا محکمہ تعلیم ان کی نااہلی میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں۔ اور ان کی کارکردگی کے لیے ایک الگ مضمون لکھنا پڑے گا۔ فی الحال تو ذرا اس چھٹیوں کے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں۔

ساری دنیا میں ایک سال میں 365 دن ہی ہوتے ہیں؛ ورکنگ ڈیز 5، اور آفس ٹائمنگ 8 سے 5۔ اسکول کی 7:30 سے 3۔ ہمارے ہاں بھی شاید ایسا ہی ہے۔ ہفتے اتوار کی چھٹی ہوتی ہے۔ 9 سے 5 آفسز 7:30 سے 2 یا اڑھائی تک اسکولز۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم نہ تو ان ٹائمنگز کو فالو کرتے ہیں نہ ہی ان میں کام کرتے ہیں۔

365 دنوں میں سے 90 دن کی گرمیوں، گرم علاقوں میں گرمیوں کی اور سرد علاقوں میں 65 دن کی سردیوں کی، اور 15 سے 20 دن کی گرمیوں کی چھٹیاں، سیشن ختم ہونے پر نئے سیشن کے آغاز تک 15-20 چھٹیاں، ہفتہ اتوار کی 48 چھٹیاں، عیدین اور دیگر مذہبی تہواروں کی اور پبلک ہالیڈیز کی دس بارہ کر لیں۔ کسی بیرونی ملک کے حکمران، وزیر اعظم، سفارت کار، کرکٹ ٹیم آ جائے تو دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر ان دِنوں کی چھٹیاں، کسی جماعت، سیاسی پارٹی اپوزیشن کا جلسہ ہو یا دھرنا اس کی چھٹیاں؛ اسموگ، فوگ، سیلاب، زلزلہ، یا کوئی وبا آ جائے تو اس کی چھٹیاں۔ ان سب کو ملا جلا کر شاید اسکولز میں تین ماہ بھی پڑھائی نہیں ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں: سیکورٹی فورسز نے کالعدم ٹی ٹی پی کی دراندازی کی کوشش کو ناکام بنا دیا

میرے بچے اے پی ایس میں پڑھتے ہیں جس کی ڈائری میں پورے سال کا سکیجوول کیلنڈر سمیت پرنٹ ہوتا ہے۔ اس میں جو چھٹیاں درج ہوتی ہیں ان کے علاوہ بھی کئی چھٹیاں ہو جاتی ہیں۔ نوٹ بکس میں 120 صفحات ہوتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ پڑھائی بھی شاید 120 دن ہی ہے۔ اس میں بھی کسی خوشی، غم یا بیماری پر لی گئی رخصت شامل کریں تو شاید یہ دن اور بھی گھٹ جائیں۔ اگرچہ سب چھٹیاں ملا کر بھی 200 دن ایسے ہونے چاہئیں کہ جن میں کام یا پڑھائی ہو مگر ہم ان سے بھی فائدہ اٹھانا پسند نہیں کرتے اور ہر وقت روتے ہی رہتے ہیں۔

اب ذرا جائزہ لیتے ہیں گرمیوں کی چھٹیوں کا جو کہ یکم جون سے مڈ اگست یا یکم ستمبر تک ہوتی ہیں۔حالانکہ گرمی تو نومبر تک جاری رہتی ہے۔ ایسے ہی سردیوں کی چھٹیاں دسمبر 25 سے یکم یا تین دسمبر تک رہتی ہیں حالانکہ سردیاں تو فروری کے اخیر تک رہتی ہیں۔ ہم اسکولز کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے ہی جہاز، ٹرین، کوچ کی سیٹس بک کروا کر اپنے ددھیال، ننھیال یا گاوں کا رخ کر لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ چھٹیوں سے ایک ہفتہ پہلے اسکولز سے بچے غائب ہو جاتے ہیں۔ اگر چھٹیاں یکم کو ختم ہو رہی ہوں تو دس تک کلاسز خالی ہی رہتی ہیں۔ یہی حال عید پر ہوتا ہے؛ تین دن کی چھٹیوں کو ہفتے سے دس دن تک کھینچ لیا جاتا ہے۔

گرمی ہو یا سردی ہم میں سے اکثر لوگ اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ سیروتفریح یا قیام کی غرض سے دوسرے شہر میں موجود رشتے داروں یا تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ اور گھروں میں بھی بجلی، پانی اور گیس نہ ہونے کی بناء پر گرمی سردی برداشت کرتے ہیں۔ کچھ امراء یا من چلے سردیوں گرمیوں میں شمالی علاقوں یا کسی مغربی ملک کو سدھارتے ہیں جہاں موسم پاکستان سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ پچھلے دسمبر میں بھی 25 دسمبر کو صرف مری میں 2000 گاڑی داخل ہوئیں۔

تو جناب اگر ہم سخت گرمی یا سردی میں اپنے گھر میں رہ سکتے ہیں، بازاروں اور تفریحی مقامات پر گھوم سکتے ہیں تو کیا یہ موسم صرف تعلیمی اداروں پر ہی اثرانداز ہوتے ہیں؟ کینیڈا، امریکہ، چائنہ، روس اور ناروے وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں کچھ علاقوں میں درجہ حرارت منفی 70 تک بھی جاتا ہے مگر لوگ حسب معمول کام کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی مڈل ایسٹرن ممالک اور افریقی ممالک میں شدید گرمی پڑتی ہے مگر وہاں بھی ہر کوئی کام میں مگن رہتا ہے اور کسی کو یہ اعتراض نہیں ہوتا کہ گورنمنٹ، اسکول انتظامیہ یا محکمہ تعلیم چھٹیوں کی تعداد یا دورانیہ آگے پیچھے نہیں کرتا۔

اگر ہم لوگ سخت سردی میں اسکول کالج نہیں جا سکتے تو مری یا ناران کاغان کیسے چلے جاتے ہیں؟ سخت گرمی میں لاہور جیکب آباد سبی کراچی میں کیسے رہ لیتے ہیں؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہمیں کام چوری کی عادت ہو گئی ہے؛ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہاتھ بھی نہ ہلانا پڑے اور سب کام بھی ہو جائیں۔ ملک کا دفاع کرنا ہو، کسی کا سوگ منانا ہو یا خوشی، کسی ملک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہو یا مخالفت ہم بس چھٹی منا لیتے ہیں اور اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں۔ ویسے تو مغرب اور چائنہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہاں کے باشندے سحر سے لے کر شام تک گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ چھٹیوں میں بھی گھر اور باہر کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور یہی ان کی ترقی کا راز بھی ہے۔

اس لیے اس بحث کو چھوڑیئے کہ چھٹیاں کب شروع ہوں اور کب ختم؛ اور ذرا اپنی کارکردگی بڑھانے کی کوشش کیجئے، شاید کچھ افاقہ ہو جائے۔ ویسے بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمی تبدیلی ساری دنیا کا مسئلہ ہے صرف پاکستانی ہی اسے نہیں سہہ رہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button