فیمینزم اور عورت مارچ؛ کیا خواتین کے مسائل گھٹ گئے؟
ایسے نعروں اور ایجنڈوں سے گریز ضروری ہے جو آسانی کی بجائے ان لڑکیوں کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جو سکول، کالجز یا یونیورسٹیز میں پڑھاتی ہیں، دفاتر میں ڈیوٹی کرتی ہیں یا مستقبل کے لیے کوئی مثبت منصوبہ رکھتی ہیں۔
حقوق نسواں، یا فيمينزم، کا سن کر شاید آپ کے ذہن میں ابھی سوشل میڈیا پر لگائے جانے والے مخصوص نعرے گونج رہے ہوں، یا پاکستان میں حالیہ کچھ برسوں سے منایا جانے والا عورت مارچ، اور اُس کے کچھ چیدہ چیدہ پوسٹرز ابھرے ہوں، لیکن میں واضح کرتی چلوں کہ ایک عورت ہونے کے ناطے میں خواتین مارچ، یا اُن بعض بیہودہ نعروں کے حق میں نہیں ہوں۔ میں کیا، میری طرح مشرق کی لاتعداد بیٹیوں کو نہیں چاہئیں وہ بعض حقوق جن کا مطالبہ خواتین مارچ کے موقع پر کیا جاتا ہے۔
آج بھی مرد ایک ایسے باپ، بھائی، یا پھر شوہر کے روپ میں کہیں کہیں موجود ہے جو بیٹی، بہن، یا پھر بیوی کے سبھی حقوق کا قائل و حامی ہی نہیں بلکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کی اہمیت سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہے بلکہ ان کے سبھی حقوق ادا بھی کرتا ہے۔ وہ بیٹا بیٹی کی اس فضول تفریق میں نہیں پڑتے۔ ایسے مرد ہی قابل احترام اور قابل قدر ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا بیٹی، بہن یا بیوی کی کامیابی بنانے میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ لیکن افسوس بہت سے مرد اس کے برعکس بھی پائے جاتے ہیں، اور صد افسوس کہ ہمارے پختون معاشرے میں شاید ان کی اکثریت بھی ہے، جو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ عورت بھی انسان ہے۔ ایسے مردوں کا بھلا کوئی کیا ذکر کرے، رہنے ہی دیتے ہیں۔
خواتین کو وہ انسانی اور شرعی حقوق دیئے جائیں جن کی وہ حقدار ہیں، ان کے ساتھ جانوروں یا روبوٹ جیسا سلوک نہ کیا جائے۔ شاید کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال آیا ہو کہ وہ کون سے حقوق ہیں جو خواتین کو درکار ہیں؟ ان کیلئے عرض ہے کہ خواتین تعلیم کا حق چاہتی ہیں؛ وہ جائیداد میں اپنا حصہ چاہتی ہیں، اور اپنی نکاح کا حق چاہتی ہیں۔اس کے علاوہ خواتین کو باوقار زندگی گزارنے کا حق بھی چاہیے۔ اگر عورت لڑکا نہ جنے تو شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے۔ پس وہ چاہتی ہیں کہ بیٹا یا بیٹی پیدا کرنا عورت کے ہاتھ میں نہیں اس لئے بیٹا نا ہونے پر اسے ذلیل نا کیا جائے۔ اسی طرح چھوٹی سی بات پر عورت کو بار بار طلاق، یا اس کی دھمکی ملتی ہے، بات بات پر مار پیٹ تو عام سی بات ہے؛ اور پھر شوھر یہ کہہ کر چپ کروا دیتا ہے: "غصے میں تھا، جو ہو گیا سو ہو گیا۔” کیسے ہو گیا بھئی!
یہ بھی پڑھیں: کرم: مذاکراتی عمل مکمل؛ تحریری امن معاہدے کے لیے راہ ہموار ہو گئی
اور بھی بے شمار مسائل ہیں۔ کچھ لوگ شاید یہ کہیں کہ اسلام نے تو دیئے ہیں سارے حقوق، عورتوں کو اور کیا حق چاہیے؟ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بلاشبہ اسلام نے دیئے ہیں سارے حقوق لیکن ہمارے معاشرے میں مجھے بتائیں کہاں پر خواتین کو وہ سبھی حقوق ملتے ہیں جو اسلام نے دے رکھے ہیں؟ لڑکا ہے تو سکول جائے گا؛ کالج و یونیورسٹی بھی، مطلب جہاں تک وہ جانا چاہے یہ اس کا حق ہے، بالکل ٹھیک! لیکن اگر لڑکی ہے تو کہیں اسے، ‘پرائے گھر کی ”چیز” ہے’ والی سوچ کے حامل بیشتر گھرانوں میں، ”لڑکی ہے پڑھ لکھ کر کیا کر لے گی، گھر ہی تو اسے سنبھالنا ہے بالآخر’ وغیرہ وغیرہ کے بھونڈے جواز بنا کر تو کہیں پر ”ماحول خراب ہے، یا زمانہ خراب ہے” کی مہر کے ساتھ اسے گھر بٹھائے رکھنے کی ضد! ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے” کو سب بھول جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچا کبھی کہ بچیوں کی تعلیم و تربیت پر ہم تو تو کیا ماحول خراب رہے گا، اگر کل ہم اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا حق تسلیم کرتے، اس پر توجہ دیتے تو کیا آج ہمارا ماحول خراب رہتا؟
اسی طرح وراثت میں عورت کا حق ہے لیکن اسے یہ حق دیتا کون ہے، اور اگر غلطی سے وہ اپنا حق مانگے، یا لے کر رہے تو مرد کی مردانگی کو ٹھیس پہنچتی ہے؛ اور یہ کہہ کر اس کے ساتھ زندگی بھر کیلئے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے کہ مر کر بھی اپنی صورت دکھانا نا ہماری صورت دیکھنے آنا۔ عین اسی طرح اگر کوئی لڑکی بوجوہ کوئی رشتہ ٹھکرا دے، یا اس سلسلے میں اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرے تو بھی اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اور شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنے والی خاتون کا تو ذکر ہی نا کریں اگرچہ اس کا یہ مطالبہ کتنا ہی جائز کیوں نا ہو، اور طلاق کی صورت میں اس کا نکاح ثانیہ کا حق تسلیم کیا جاتا ہے نا ہی اسے سماجی و معاشی تحفظ دیا جاتا ہے۔ طرح طرح کی باتیں، اور طعنے اسے الگ سے سہنا پڑتے ہیں۔
خواتین کا مطالبہ ہے کہ اگر کوئی عورت طلاق یافتہ ہو، بیوہ یا پھر غیرشادی شدہ ہو تو اسے معاشرے میں وہی عزت دی جائے جس کی وہ حقدار ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی خواتین ہیں جو گھر میں مرد نا ہونے کی وجہ سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ان کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے۔ اور اگر تعاون ممکن نہیں تو کم از کم ان پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیے۔ خواتین کالجوں، یونیورسٹیوں یا دفاتر میں ہراساںی سے تحفظ چاہتی ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ خواتین مردوں کو کوئی دوسری مخلوق یا عورت کے دشمن سمجھتی ہیں نہ ہی مرد کے بغیر معاشرہ مانگتی ہیں بلکہ عورت مرد کو اپنا محافظ سمجھتی ہیں۔ آخر میں عورت مارچ کے حامی لوگوں کے نام یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر آپ نے صحیح معنوں میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنا ہے تو ایسے نعروں اور ایجنڈوں سے گریز ضروری ہے جو آسانی کی بجائے ان لڑکیوں کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جو سکول، کالجز یا یونیورسٹیز میں پڑھاتی ہیں، دفاتر میں ڈیوٹی کرتی ہیں یا مستقبل کے لیے کوئی مثبت منصوبہ رکھتی ہیں کیونکہ ہم ایک اسلامی اور مشرقی معاشرے کے باسی ہیں۔