بلاگز

”اپنے کام سے کام رکھو! تم یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہاں کھڑا نہیں ہونا”

بی آر ٹی کی خاتون اہلکار نے بتایا کہ یہ اک بار نہیں ہوا، آئے روز اس کے ساتھ اس طرح کی بدتمیزی ہوتی ہے۔

کچھ دن پہلے بی آر ٹی میں کہیں جا رہی تھی؛ ساتھ بی آر ٹی کی ایک خاتون سیکیورٹی گارڈ بھی بیٹھی ہوئی تھی، باتیں شروع ہوئیں، اور پھر بات سے بات نکلتی گئی۔ باتوں باتوں میں اس نے ڈیوٹی کے حوالے سے بھی بتایا۔ ایک دم سے اس کی نظر خواتین کے دروازے پر پڑی تو کہنے لگی: "دیکھو تو ذرا! خواتین، کے دروازے کے پاس سارے مرد کھڑے ہیں۔ میں تو ان کو منع کر کر کے تھک گئی ہوں بلکہ ایک روز تو ایک آدمی نے میرے ساتھ بدتمیزی بھی کی اور بولا کہ اپنے کام سے کام رکھو! تم مجھے یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہاں کھڑا نہیں ہونا۔”

بی آر ٹی کی خاتون اہلکار نے بتایا کہ یہ اک بار نہیں ہوا، آئے روز اس کے ساتھ اس طرح کی بدتمیزی ہوتی ہے: "کیا ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ میں رات گئے تک خواتین کے لیے ہی بس میں موجود ہوتی ہوں۔ آئے روز بچے اور بڑے بس میں گند پھینکتے ہیں؛ منع کرو تو سیدھا بدتمیزی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے ساتھ بدتمیزی تب زیادہ ہوتی ہے جب خواتین اپنے ساتھ بھاری سامان اٹھا لاتی ہیں جو بی آر ٹی میں ممنوع ہے۔”

خاتون کی باتیں سن کر دل کافی اداس ہوا؛ میں اِس سوچ میں پڑ گئی کہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے کیونکہ اپنا بھی یہی روزمرہ کا مشاہدہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل اور لائٹ ڈیزل آئل مہنگا کرنے کا فیصلہ

بی آر ٹی کے پسینجرز، خواہ مرد ہوں یا خواتین، سب کو چاہیے کہ ان خواتین گارڈز کے ساتھ تعاون کریں نہ کہ ان کے کام میں حائل یا مزاحم ہوں کیونکہ پشاور جیسے شہر میں، جہاں کی اکثریت پشتون قدامت پرستوں کی ہے، خواتین کا اس طرح کی ڈیوٹیوں پر مامور ہونا بھی بہت بڑی بات ہے۔

بی آر ٹی پشاوری خواتین کی ایک اشد ضرورت تھی۔ 2016 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پشاور میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سواریوں میں خواتین کا حصہ محض 15 فیصد تھا، اور انٹرویو دینے والی 90 فیصد خواتین پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتی تھیں۔

اور ایک وجہ یہ بھی تھی جب خواتین کے لیے بس میں ایک الگ سیکشن، بی آر ٹی آپریشنز کے لیے 15 فیصد خواتین عملہ، شکایات ریکارڈ کرنے کے لیے موبائل ایپ کا استعمال، ہر سٹیشن پر اور ہر بس کے اندر خواتین سیکیورٹی عملہ کی موجودگی، اور مختلف آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ عملے کی تربیت جیسے اقدامات بی آر ٹی پراجیکٹ کا حصہ بنائے گئے۔

بی آر ٹی پشاور میں تقریباً 3,000 سے 3,500 اہلکار ہیں۔ اِن میں سے تقریباً 10 فیصد خواتین ہیں اور اکثریت کا تعلق چترال، چارسدہ اور پشاور کے نواحی علاقوں سے ہے۔ یہ خواتین اکثر مالی طور پر کمزور خاندانوں سے، یا کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں۔ نجانے کیوں لوگوں کا رویہ ان کے ساتھ برا ہوتا ہے کیونکہ میں نے کئی خواتین کو یہ کہتے سنا ہے کہ بی آر ٹی کی خواتین سیکیورٹی گارڈز کی وجہ سے ہی ہمارے مردوں نے ہمیں بی آر ٹی میں سفر کی اجازت دی ہے بلکہ ہم لوگ خود بھی ان خواتین کے ہوتے ہوئے خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ کارڈ میں پیسے ڈالنے ہوں، خواتین کی چیکنگ ہو یا کارڈ سکین کرانا ہو تو آپ کو خواتین ہی نظر آئیں گی، تو کیا یہ ایک بہترین سہولت نہ ہوئی؟ بی آر ٹی نے خواتین کے تحفظ کی خاطر زنانہ اسٹاف میں اضافہ کیا ہے تو کیوں نہ ہم اِن کے ساتھ نہ صرف دوستانہ رویہ رکھیں بلکہ اِن کو سراہیں بھی بالکل اسی طرح جب 2022 میں اقوام متحدہ کی اہلکاروں اور بی آر ٹی نے مل کر خواتین کا عالمی دن منا کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button