پولیس پر حملے؛ محافظ ہی محفوظ نہیں!
اب تو خبروں میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ سندھ پولیس کراچی اور کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں یوں بے بسی کی موت ماری جاتی ہے کہ انہیں اپنی ہی بکتر بند گاڑیوں میں جلا کر مار دیا جاتا ہے اور وہ بے یارومددگار اپنے دفاع سے بھی قاصر ہیں۔
رمضان 2008 میں کوئٹہ کے مشہور بازار لیاقت بازار جانے کا اتفاق ہوا۔یہ تو یاد نہیں کیوں گئے تھے لیکن یقیناً کوئی اہم چیز ہی لینی تھی ورنہ رمضان میں شاپنگ کا شوق بالکل بھی نہیں ہے۔ رش بہت زیادہ تھا لہذا پرنس روڈ پر پھنس گئے؛ اچانک بھگدڑ مچ گئی اور لوگ ہارنز بجانے لگے، کسی بائیک والے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ پچھلے چوک پر پولیس والے کھڑے تھے جن پر نامعلوم موٹرسائیکل سوار فائرنگ کر کے چلے گئے۔ ہم ٹھہرے شہر اقتدار کے باسی ہمارے لیے یہ واقعہ حیرت انگیز تھا کہ محافظ ہی محفوظ نہیں۔
پھر یوں ہوا کہ میزان چوک، جوائنٹ روڈ، اکرم ہاسپٹل کے ساتھ پولیس چوکی، اور انٹیرئیر بلوچستان کے فورسز کے کارواں اور کینٹس پر اتنے حملے ہوتے دیکھے کہ معمول بن گیا۔ اکثر فورسز کے ٹرکس اور پولیس کی کارز میں ہی بم پھٹنے لگے۔ یوں دن بہ دن فورسز کے لوگ بڑی تعداد میں مرتے گئے۔ اب تو خبروں میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ سندھ پولیس کراچی اور کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں یوں بے بسی کی موت ماری جاتی ہے کہ انہیں اپنی ہی بکتر بند گاڑیوں میں جلا کر مار دیا جاتا ہے اور وہ بے یارومددگار اپنے دفاع سے بھی قاصر ہیں۔
خیبر پختونخوا پولیس پر بھی آئے روز دہشت گرد ان کے تھانوں میں حملے کر کے انہیں ہلاک کر کے چلتے بنتے ہیں اور ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ رہ گئی پنجاب پولیس تو ماشاءاللہ اتنی چست و مستعد ہے کہ ان کے لاہور کے ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا اور 11 پولیس والے مارے گئے۔ اور تو چھوڑئیے ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کے آفس پر بھی دہشت گرد حملہ کر جاتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر پاتے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: دلیپ کمار اور راج کپور کی حویلیوں کی تزئین و آرائش کا فیصلہ
حیرت کی بات یہ ہے کہ ائیر فورس، آرمی، ایف سی، پولیس، انٹیلیجنس ایجنسیز، اور اس طرح کے سارے ادارے کسی بھی ملک کے محافظ مانے جاتے ہیں؛ لیکن ہمارے ہاں تو محافظ ہی محفوظ نہیں، ہماری حفاظت خاک کریں گے۔
مانا کہ دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے لیس اور اعلی تربیت یافتہ ہوتے ہیں لیکن ٹریننگ تو ہماری تمام فورسز کی بھی کی جاتی ہے؛ ہتھیار تو اِن کے پاس بھی ہوتے ہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ فورسز ہمیشہ دہشت گردوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتی ہیں۔
چلیں یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ پولیس والے مستعدی سے اپنا فرض سرانجام دینے کی بجائے کسی جگہ اکٹھے ہو کر چائے پیتے، اور خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں؛ لیکن اگر کسی بھی مقام پر کسی بھی فورس کے مرد و زن اہلکاروں کی ڈیوٹی سیکورٹی پر ہو تو مرد اہلکار بس سکینر سے گزار کر یا شرٹ کی جیبیں تھپتھپا کر اور فون پر گفتگو میں مصروف خواتین اہلکار خواتین کے بیگز کھلوا کر، سرسری نظر ڈال کر انہیں کلیئر قرار دے دیتی ہیں اور یوں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً کینٹ، ریلوے اسٹیشن، مساجد، سکولز ، پارکس اور دیگر مقامات پر بم دھماکے ہوتے ہیں، یا پولیس اہلکاروں پر فائرنگ اور ان سمیت عوام کے بھی پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ لیکن اسلحے سے لیس فورسز کے کارواں، کینٹس، آفسز اور سیکورٹی پر مامور ٹرکس پر حملہ کیسے ہو جاتا ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
کیا ہمارا سسٹم اتنا بیکار ہے کہ یہ فورسز اپنے اوپر حملوں کی خبر سے مطلع ہو پاتی ہیں نہ ہی اپنا دفاع کر سکتی ہیں، یا دہشت گرد ان سے زیادہ منظم، تربیت یافتہ اور جدید طریقہ کار استعمال کرنے والے ہیں؛ آخر ایسا کیا ہے جو انہیں ناکام اور حملہ آوروں کو کامیاب بنا دیتا ہے؟ میری خواہش ہے کہ کسی ایسے دہشت گرد سے ملاقات کر کے یہ راز جان سکوں جس نے ایسے حملوں میں حصہ لیا ہو کہ دو دن تک آرمی کے گھر میں بیٹھ کر بیسیوں جوان اور آفیسرز مارے اور پھر ایک بھی زخم کھائے بغیر آرام سے فرار بھی ہو گیا ہو۔ کیونکہ ہماری فورسز کا حال تو ہمارے سیاستدانوں جیسا ہے، انہوں نے تو کبھی سچ بولنا ہے اور نہ ہی اپنی ناقص کارکردگی کو ‘اون’ کر کے شرمندہ ہو کر اسے سدھارنا ہے بلکہ ہمیشہ ‘آل اِز گڈ’، ‘ہم نے دہشت گرد حملہ ناکام بنا دیا’، ‘شہید اہلکاروں کے لیے کروڑوں کا انعام کیونکہ انہوں نے وطن کے دفاع کی خاطر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا’ جیسے بیانات دے کر ڈنگ ٹپا دینا ہوتا ہے۔ ہاں! کوئٹہ و خیبر پختونخوا پولیس اور دیگر فورسز میں ایک فرق ضرور ہے کہ پولیس کے آئی جیز اور دوسرے افسران بھی ایسے حملوں میں شہید ہوئے ہیں جب کہ فورسز میں اکثر جوان یا ینگ آفیسرز ہی شہید ہوتے ہیں، ایک آدھ کے علاوہ ہائی رینک آفیسرز شہید نہیں ہوتے۔
ارباب اختیار کو اس معاملے پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ محافظ اپنی حفاظت کرنے کے قابل ہوں گے تو ہی عوام کو محفوظ رکھ سکیں گے۔
نوٹ: ادارے کا بلاگرز کے خیالات کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں۔