پشہ خلوصائی، محسود قبیلے کی ایک ایسی انوکھی رسم جس کے بنا دولہا سسرال میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا
کلثوم محسود
پشہ خلوصائی (پاؤں کھلائی رسم) محسود قبائیل جو عرصہ دراز سے وزیر ستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں قیام پذیر ہیں اور وہ اپنی قبائیلی روایات اور رسم و رواج کی وجہ سے تمام قبائیل میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ باقی قبائیل نے اپنے رسم و رواج میں زمانہ جدید کے ساتھ تبدیلیاں کی جبکہ محسود قبائل آج بھی اپنی روایات کو ساتھ جوڑے رکھتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ محسود قوم کے لئے اپنے روایتی رسم و رواج ایک عقیدے کی طرح اہمیت رکھتے ہیں۔ جس پر عمل پیرا ہونا وہ اپنا فرض عین سمجھتے ہیں اور زندگی کے معاملات میں اُن پر عمل پیرا ہونا ان کے لئے دائمی خوشی کا سبب بنتا ہے ۔ ایسی ہی ایک خوبصورت رسم پشہ خلوصائی ہے۔ جو شادی بیاہ کے معاملات میں خوبصورتی سے ادا کی جاتی ہے۔ شادی بیاہ ہر دور، ہر مذہب، ہر قوم میں نئی انسانی زندگی کی شروعات کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ محسود قبائیل بھی شادی بیاہ کے معاملات ایک بہت ہی خوبصورت رسم ادا کرتے ہیں۔
یہ رسم ایک لڑکا اور ایک لڑکی کے رشتہ کی منظوری اور دعائے خیر کے بعد ادا کی جاتی ہیں اور اس رسم کا ادا کرنا لڑکے کے خاندان پر واجب الادا ہے ۔کیونکہ جب تک (پشہ خلوصائی) یعنی پاؤں کھلائی کی رسم ادا نہیں کی جاتی دلہا اپنے سرال میں شادی سے پہلے یا شادی کے بعد قدم نہیں رکھ سکتا کسی بھی خوشی یا غمی یا عیادت کے معاملات میں اس لئے اس رسم کو شادی بیاہ میں ایک امتیازی مقام حاصل ہیں۔
لڑکے کے گھر والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ رشتہ کی منظوری کے بعد جلد از جلد یہ رسم ادا کی جائے ۔ تاکہ بوقت ضرورت لڑکا شادی سے پہلے سسرال کی غمی خوشی و عیادت میں آزادی اور خود مختاری سے جاسکیں۔
اس رسم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شیر محمد نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ اس نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے والد کے پشہ خلوصائی میں بذات خود شرکت کی اور اسکے بعد اپنے والد کے ساتھ وہ اپنے ننھیال گئے ۔ کیونکہ شیر محمد کے والد نے پشہ خلوصائی (پاؤں کھلائی) کی رسم ادا نہیں کی تھی اور وہ شادی کے بعد دبئی چلے گئے تھے۔ اسکے کئی سال بعد جب وہ وطن واپس لوٹے تو اس رسم کی ادائیگی کی، جس میں اس کا اپنا بیٹا شیر محمد بھی ان کے ساتھ شریک ہوا۔ اس واقعے سے اس رسم کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ پیشہ خلوصانی کیلئے باقاعدہ دن رکھے جاتے ہیں۔
پشہ خلوصائی میں دونوں خاندان برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ دونوں خاندان کے بڑے بزرگ بچے عورتیں ایک دوسرے کے گھر باقاعدہ اہتمام سے گروہ کی صورت میں جاتے ہیں۔ پہلے لڑکے کے گھر والے لڑکے سمیت لڑکی کے گھر جاتے ہیں. جیسے بارات میں عموما ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں یہ بیان کر دو کہ یہ بارات کے علاوہ رسم ہیں۔ لڑکی کے گھر والے بکرے ذبح کرتے ہیں ۔
باقاعدہ خالص پکوان تیار کئے جاتے ہیں ۔ لڑکے کو سونے کی انگھوٹی، گھڑی، واسکٹ، کپڑے، جوتوں کے جوڑے اور ڈھیر سارے تحائف سے نوازا جاتا ہے ۔ جو کہ لڑکی کی بہنیں بھائی اور باقی رشتے دار دیتے ہیں۔ لڑکے کے ساتھ آئی ہوئی عورتوں کو بھی ایک ایک جوڑا کپڑے دیتے ہیں۔ چاہے وہ عورتیں تعداد میں کتنی بھی زیادہ ہو اور یہ خاص مہمان نوازی ہوتی ہیں۔
اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہیں۔ کہ یہ رسم پشہ خلوصائی یوں تو لڑکے کی پاؤں کھلائی کے لئے کی جاتی ہیں۔ لیکن اس رسم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دونوں خاندانوں میں مضبوط روابط قائم ہو جاتے ہیں۔ لڑکے کے گھر والے لڑکی کے گھر جا کر اتن کر کے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اس میں دونوں طرف سے صرف اور صرف خاندان کے لوگ رشتہ دار شریک ہوتے ہیں۔
اس رسم کو دونوں خاندانوں کی نجی رسم بھی کہا جا سکتا ہیں۔ کیونکہ جہاں شادی میں ڈھول کی تاپ پر ہر کوئی شامل ہو سکتا ہوں ہیں وہاں پشہ خلوصائی میں صرف اور صرف قریبی رشتےدار شریک ہو کر لڑکا اور لڑکی کو نئی زندگی میں برکت کی دعا دیتے ہیں۔
اور اسی طرح اگلے دن دلہن کے گھر والے لڑکے کے گھر جاتے ہیں یہاں ایک اہم نقطہ ہے کہ لڑکی کے گھر والوں کے ساتھ لڑکی نہیں جاتی کیونکہ یہ قبائیلی رسم و رواج کے خلاف ہے۔ لڑکی کے گھر والوں کی بھی خاطر تواضع کی جاتی ہیں۔ لڑکی کے گھر والی عورتوں کو بھی نت نئے جوڑوں سے نوازتے ہیں، اور لڑکی کے ماموں کو خاص طور پر نوازا جاتا ہے جس میں ایک مناسب قسم کی سلامی ان کو ادا کی جاتی ہے اور ایک پگڑی بھی اس رسم میں اُن کو دی جاتی ہیں ۔
یہ پگڑی یا شملہ عزت و تکریم کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت رسم ہے۔ یہ رسم ادا کرنے کے بعد لڑکا شادی سے پہلے اپنے سرال میی غمی ،خوشی ،فوتگی اور عیادت کے معاملات میں باعزت طریقے سے شرکت کرتا ہے ۔