جیسی عوام ویسے ہی حکمران، ایک تلخ حقیقت
حمیرا علیم
آج اپنی ایک میڈیسن لینے کیلئے اسٹور جانا تھا۔ یہ ایک بڑا اسٹور ہے جہاں ہر طرح کی چیز دستیاب ہے اس لئے عموما لوگ پورے مہینے کا سودا یہیں سے خریدتے ہیں۔ کیونکہ ہر چیز ایک ہی چھت کے نیچے مل جاتی ہے اور بازار میں گھومنا نہیں پڑتا۔ قیمتیں بھی مناسب ہی ہیں۔ چنانچہ میں بھی یہی سے پورے مہینے کی گروسری کر لیتی ہوں۔ چونکہ چیزیں زیادہ ہوتی ہیں اور رش بھی ہوتا ہے اس لئے لسٹ کو ٹیلی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک دو بار ایسا ہوا کہ کوئی چیز کم تھی یا کوئی چیز دو بار لسٹ میں موجود تھی اور اس کی قیمت بھی دونوں ہی کی کاٹی گئی تھی جبکہ میں نے خریدی ایک ہی تھی اور گروسری میں بھی ایک ہی موجود تھی۔
اگرچہ مینیجر کو فون کرنے پر پیسے واپس کر دئیے گئے مگر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ نجانے کتنی بار کتنی چیزوں کی قیمت دگنی دی ہو گی اور نجانے کتنے اور کسٹمرز نے بھی بغیر کوئی چیز خریدے اسکی قیمت دی ہو گی کیونکہ شہر میں زیادہ تر پٹھان اور بلوچ فیمیلز ہیں جو جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں، اس لئے انکے فیملی ممبرز بھی زیادہ ہوتے ہیں لہذا انکی گروسری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک ایک شخص ماشاءاللہ چار چار ٹرالیز میں سامان لئے کاونٹر پر موجود ہوتا ہے۔
ان جیسے کسٹمرز کو تو شاید گھر جا کر بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا ہو گا کہ کتنی چیزیں کم ہیں اور انکی قیمت بھی لسٹ میں موجود ہے۔ واللہ اعلم یہ اسٹور کی ایک سوچی سمجھی چال ہے یا سیلز مین کی غلطی لیکن کسٹمرز کو تو چونا لگایا جا رہا ہے۔ کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ اتنا بڑا اسٹور ایسی اوچھی حرکت کر رہا ہو گا۔ اللہ تعالٰی ہم پر رحم کرے۔
میڈیسن خرید کے اسٹور سے نکلی تو بیٹے نے اسٹرابیری خریدنے کا کہا۔ اسٹور کیساتھ ہی سبزی اور فروٹ مارکیٹ ہے لہذا ادھر کا رخ کر لیا۔ ہر چیز کی قیمت آسمانوں سے بات کر رہی ہے۔ کچھ خاص لینا بھی نہ تھا سو ایک دکان سے اسٹرابیری لی اور اپنی طرف سے دیکھ بھال کے صاف ستھری اسٹرابیریز کے دو ڈبے لئے۔
کچھ ٹماٹر خریدے کیونکہ بچے سلاد شوق سے کھاتے ہیں اور دکاندار کو بولا بھی کہ سخت اور سرخ ٹماٹر ڈالنا مگر وہ پاکستانی دکاندار ہی کیا جو قوم شعیب والا کام نہ کرے۔ کچھ پھل لئے اور گھر آ گئے۔ جب سب کچھ دھونے کیلئے کچن سنک پر رکھا تو اسٹرابیریز کے دونوں ڈبوں میں اوپری تہہ تو صاف پھل کی تھی لیکن نچلی تہہ میں سب گلی سڑی اسٹرابیریز تھیں ۔ٹماٹروں کا بھی یہی حال تھا۔
دکانداروں کے پاس کوئی خاص جادو ہوتا ہے کہ بندہ اپنی نظریں گاڑ کر بھی بیٹھ جائے وہ کسی نہ کسی طریقے سے گندی چیز ڈال ہی دیتے ہیں ۔کسی فروٹ یا سبزی فروش سے بنا بھاؤ تاو کئے چیز خریدیں اور یہ توقع رکھیں کہ وہ ایمانداری سے چیز دے گا تو یہاں کی بھول ہے۔ دودھ والا پانی ملاتا ہے، مصالحہ جات ملاوٹ والے ہیں۔ دکان دار کم تولتا ہے، آفسز میں بیٹھے لوگوں کو اپنا فرض ادا کرنے کے لئے ، جس کی وہ معقول تنخواہ لیتے ہیں کمیشن چاہیئے ، اساتذہ اسکولز کو ہزاروں فی لے کر ٹیوشن پڑھانی ہے۔ غرض ہر شخص دوسرے کو بے وقوف بنانے کی کوشش میں رہتا ہے اور پھر حیران ہوتا ہے کہ ہم پر زوال کیوں آتا ہے مصائب کی بھرمار کیوں ہے۔
مجھے یاد ہے راولپنڈی میں شام کو تمام اشیاء کچھ سستے داموں بیچ دی جاتی تھیں اور شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ چیز ضائع کرنے کی بجائے کسی کے کام آ جائے۔ مگر یہاں تو ساری دکان کا پھل یا سبزی گلا سڑا کر پھینک دیں گے مگر حرام ہے دام کچھ کم کریں ۔اس پر مستزاد یہ کہ تولنا بھی کم ہے ۔مارکیٹ کے ہر چکر پر قوم شعیب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم میں پہلی تمام تباہ شدہ اقوام والی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا نہ ہوتی کہ اے اللہ! تو میری امت کو مکمل طور پر تباہ نہ کرنا۔ تو یقینا ہم پر بھی بنی اسرائیل کیطرح عذاب در عذاب نازل ہوتے۔
ویسے کچھ جھٹکے تو اللہ تعالٰی ہمیں لگاتے ہی رہتے ہیں کبھی سیلاب، کبھی زلزلہ، کبھی کوئی وبا اور کبھی بے رحم اور کرپٹ حکمران۔ پر آفرین ہے ہم پر بھی ہم بھی بنی اسرائیل کیطرح عذاب دیکھ کر بیبے مسلمان بن جاتے ہیں اور اس کے ٹلتے ہی اپنی پرانی روش پر لوٹ آتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی ہمیں باعمل مسلمان بنائے۔