بلاگزعوام کی آواز

کیا لڑکوں کو بھی تصویر کھینچوانے سے مسئلہ ہو سکتا ہے؟

رعناز

کچھ دنوں پہلے میں صحافت کی ایک ٹریننگ میں تھی۔ جس ادارے کی طرف سے ٹریننگ دی جا رہی تھی تو ان کے مالکان نے ٹریننگ شروع ہونے سے پہلے ایک اعلان کیا۔ دراصل وہ اعلان تصویر لینے کے حوالے سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ جس جس کو بھی تصویر سے مسئلہ ہے اور وہ بندہ تصویر نہیں کھینچوانا چاہتا تو وہ پہلے سے بتا دے۔ ہم ان کی تصویر نہیں لے گے۔ ٹریننگ ہال میں موجود 25 لوگ (جس میں مرد اور عورت دونوں تھے) میں سے تین لڑکیوں نے کہا کہ ہماری تصویر نہ لے ۔ہمیں تصویر سے مسئلہ ہے۔

ادھر ایک حیران کن اور انہونی بات سامنے آئی۔ ٹریننگ ہال میں موجود ایک لڑکے نے بھی کہا کہ میری تصویر لینے سے گریز کریں مجھے بھی مسئلہ ہے۔ ٹریننگ ہال میں موجود سارے لوگ اس کی اس بات پر کافی حیران ہو گئے۔ سب نے اس لڑکے کی طرف مڑ کر کہا کہ ایک لڑکا ہو کر آپ کو تصویر کھینچوانے میں کیا مسئلہ ہو رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس لڑکے نے کہا کہ تصویر کا مسئلہ صرف لڑکیوں کو نہیں، ہم لڑکوں کو بھی ہو سکتا ہے۔ ہماری بھی کچھ مجبوریاں ہو سکتی ہے جیسے کہ لڑکیوں کی ہوا کرتی ہے۔

اس لڑکے کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں یہ  دکیانوسی خیالات کی ایک لہر سی چلتی آرہی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کام صرف مرد سے وابستہ ہے اور یہ کام صرف عورت سے وابستہ ہے۔ صرف مرد ہی یہ کام کر سکتا ہے عورت نہیں کر سکتی اور صرف عورت ہی یہ کام کر سکتی ہے اور مرد نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ مرد مضبوط ہے اور عورت کمزور ہے۔ مرد کمزور نہیں ہو سکتا اور عورت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ مرد نہیں رو سکتا اور عورت رو سکتی ہے۔ عورت کمزور ہو سکتی ہے لیکن مرد نہیں۔ مطلب یہ کہ رونا، کمزور ہونا اور مجبور  صرف عورت کی فطرت ہو سکتی ہے مرد کی نہیں۔ اسی طرح مضبوط ہونا صرف مرد سے وابستہ ہے عورت سے نہیں۔

مزید اس لڑکے کا کہنا یہ تھا کہ یہ ساری باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طرح مرد کے حقوق ہے اسی طرح عورت کو بھی حقوق حاصل ہے۔ اگر مرد کو رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے تو اسی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ اسی طرح تصویر لینے میں اگر  عورت کی کچھ مجبوریاں ہو سکتی ہے تو اسی طرح مرد کی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے عورت تصویر لینے سے ہچکچاتی ہے تو اسی طرح مرد کی بھی مجبوری ہو سکتی ہے اور وہ تصویر لینے سے ہچکچا سکتا ہے یا منع کر سکتا ہے۔

ایک عورت کی جس طرح پروفیشنل اور گھریلو مجبوریاں ہو سکتی ہے اسی طرح مرد کی بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ ایک سوچ غلط ہے کہ انہوں نے کچھ کام مردوں کے لئے مختص کئے ہیں اور کچھ عورتوں کے لئے۔ جیسے کہ گھر کا کام صرف عورت کی ذمہ داری ہے مرد کی نہیں۔ حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے خود ایسے کئی مرد دیکھے ہیں جو گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔کچن میں کام کرتے ہیں۔ بچوں کو سکول کے لئے تیار کرتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے کو مرد کا یہ روپ بالکل پسند نہیں آتا اور نہ ہی معاشرا ایسے مردوں کو قبول کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح اگر ایک مرد یہ کہے کہ مجھے تصویر لینے سے مسئلہ ہے تو لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی سوچ یہ ہے کہ ایک مرد تو آزاد ہے، مضبوط ہے ۔اس کو نہ تصویر سے مسئلہ ہو سکتا ہے، نہ کسی اور چیز سے ۔بس مرد جو بھی کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے۔ اسے کوئی بھی مجبوری نہیں ہو سکتی۔ وہ جو بھی کرے کوئی بھی اسے روک ٹوک نہیں سکتا اور نہ ہی مرد کو کسی چیز سے مسئلہ ہو سکتا ہے ۔حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ہے مرد کی بھی مجبوری ہو سکتی ہے اسے بھی تصویر لینے سے مسئلہ ہو سکتا ہے اور وہ بھی  تصویر لینے پر اعتراض کر سکتا ہے۔

لہذا ہمیں بالکل اسی طرح مرد کی رائے کا بھی احترام کرنا چاہیئے جیسے کہ عورت کا کیا جاتا ہے۔ اگر تصویر لینے کی اجازت ہم عورت سے لیتے ہیں تو بالکل اسی طرح مرد کی اجازت لینا بھی ضروری ہے۔ دونوں کی رائے کا احترام کرنا چاہیئے۔

 

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button