ڈراموں میں حقیقت کا عکس، کبھی میں کبھی تم
سندس بہروز
پچھلے دنوں میری نظر سے ایک ڈرامہ گزرا۔ اس کا عنوان "کبھی میں کبھی تم” مجھے ذرا دلچسپ لگا۔ ویسے تو میں نے ڈرامے دیکھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اکثر کہانیاں اب ایک جیسی ہوتی ہیں مگر میں نے اس کی تعریف سنی تھی اسی لئے سوچا کیوں نہ اس کو دیکھا جائے۔ اس ڈرامے کا ہیرو مصطفیٰ ایک عام شخص جیسا ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب یہ سمجھتے ہے کہ وہ ایک کام چور اور نکھٹو ہے. جو زندگی کو بالکل بھی سنجیدہ نہیں لیتا۔
مصطفیٰ کوئی بہت بڑا بزنس مین نہیں ہے نہ ہی کوئی ڈاکٹر یا انجینئر ہے بلکہ وہ اس بات سے بے نیاز ہے کے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ ہر وقت اپنی گیم میں مصروف رہتا ہے۔ مصطفیٰ کی شادی ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جو زندگی کے بارے میں بہت سنجیدہ ہے اور ایک کامیاب کریئر بنانا چاہتی ہے۔ گھر میں مصطفیٰ کی کمزور حیثیت کی وجہ سے اس کی بیوی شرجیلہ بھی کافی متاثر ہوتی ہیں مگر وہ ہار نہیں مانتی اور ہر موقع پر مصطفیٰ کا ساتھ دیتی ہے، اس بات سے بے نیاز کے مصطفیٰ اس کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ حقیقی زندگی کے مردوں کی طرح مصطفیٰ بھی اپنے جذبات کا اظہار کھل کر نہیں کرتا اور نہ ہی وہ زیادہ رومینٹک ہے۔
دوسرا ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہماری فلموں اور ڈراموں کے ہیرو سب کے لاڈلے ہوتے ہیں۔ وہ سب کے کام آتے ہیں اور سب ان سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ڈرامہ سیریل کبھی میں کبھی تم کا مصطفیٰ اس دقیانوسی تصور کو بھی پاش پاش کرتا ہے کیونکہ نہ تو اس کے والد اس سے خوش ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کی والدہ اس کے لاڈ اٹھاتی ہیں۔ بلکہ وہ ہر وقت ان کے طنز کا نشانہ بنا ہوا ہوتا ہے اور وہ اس سے ناراض لگتے ہیں کیونکہ مصطفیٰ کام چور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اس کے بڑے بھائی عدیل کو ماں باپ سے کافی داد ملتی ہے کیونکہ وہ ان کا کماؤ پوت بیٹا ہے۔
اس ڈرامے میں بہت کھل کر ہمارے معاشرے کی ایک حقیقت کی عکاسی کی گئی ہے۔ ہم نے اپنے ارد گرد یہ دیکھا ہے کہ جو بیٹا کا کماؤ پوت ہوتا ہے اور جس کے خرچے سے گھر چلتا ہے اس بیٹے کو زیادہ ترجیح ملتی ہے۔ یعنی کہ جیسے ایک عمر کے بعد معاشرہ انسان کو اس کی کمائی سے تولتا ہے اسی طرح والدین کے پیار کو بھی پیسوں کا چشمہ لگ جاتا ہے۔۔ جو اولاد جتنا زیادہ اچھا کماتی ہے اس کو اتنا ہی زیادہ پیار اور عزت ملتی ہے۔ اور چونکہ مصطفیٰ کھیل میں اپنا وقت برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا اسی لئے وہ پورے خاندان کہ عتاب کا شکار ہوتا ہے۔
یہ ڈرامہ شاید اس وجہ سے بھی ناظرین کو اپنی طرف کھینچتا ہے کہ یہ حقیقت کے بہت قریب ہیں۔ ورنہ ہمارے ڈراموں میں دکھائے جانے والا ہیرو ایک امیر شخص ہوتا ہے، جو اپنی بیوی کی تمام خواہشات پوری کرتا ہے۔ اس کو غیر ملکی دوروں پر لے کر جاتا ہے اور مہنگے مہنگے کپڑے دلواتا ہے۔ انہی ڈراموں کو دیکھ کر ہماری لڑکیوں کے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور وہ ازدواجی زندگی سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیتی ہیں جو بعد میں ان کے لئے بہت مسائل کی وجہ بنتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو پھر حقیقی زندگی میں بھی کوئی ایسا شخص چاہیئے ہوتا ہے جو امیر ہو، ان کے آگے پیچھے پھرتا ہو اور ان کے تمام خواہشات ان کے بولے بنا پورے کرتا ہو۔ لڑکیوں کا تصوراتی ہیرو ان سے اپنے جذبات کا اظہار کھل کرتا ہوں اور رومینٹک ہوتا ہوں۔
جب ان ناول اور ڈراموں کو دیکھنے والی لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے تب ان کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی رفیقِ حیات سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کر لی ہیں اور یہ دھچکہ اتنا زوردار ہوتا ہے کہ شادی کے شروع کے کچھ سال وہ اس دھچکے کو ہضم نہیں کر پاتی۔ اور اس چیز کو سوچ کر وہ ساری عمر ٹھنڈی آہیں بھرتی رہتی ہیں کہ کاش ہمارا رفیقِ حیات ایسا ہوتا کاش وہ ویسا ہوتا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی شادیوں سے ناخوش ہیں۔ ہمارے ڈراموں اور فلموں میں دکھائے جانے والے ازدواجی رشتے حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ لیکن کبھی میں کبھی تم کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ دوسرے ڈراموں اور فلموں نے جو ہماری توقعات آسمانوں تک پہنچائی ہیں یہ ڈرامہ ہمارے لڑکیوں کے ان توقعات کو کم کرنے میں مدد کرے گا اور ان کو سکھائے گا کہ حقیقی زندگی میں میاں اور بیوی محنت کر کے اپنی زندگی سنوارتے ہیں اور اپنے گھر کو مل کر پرآسائش بناتے ہیں۔ اسی طرح زندگی امن کا گہوارہ بنتی ہے۔