ماں کے سب بچے ہوتے ہیں مگر ماں سب بچوں کی نہیں ہوتی، ایسا کیوں؟
سندس بہروز
مریم نے مجھ سے کہا کہ "ماں کے سب بچے ہوتے ہیں مگر ماں سب بچوں کی نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہے؟” مریم نے مجھے یہ جواب تب دیا، جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں پریشان ہو۔ اس نے بہت گہری بات کی تھی جس کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ جب میں نے اس سے وضاحت مانگی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی تنخواہ میں ایک معقول رقم اپنی والدہ کو دیتی ہے۔ اس کے والد کی وفات کے بعد اس کے بھائی اس کی والدہ کا بہت اچھا خیال رکھتے ہیں مگر اس کو لگتا ہے کہ یہ میری بھی ذمہ داری ہے کہ میں ان کا خیال رکھوں۔
کیونکہ وہ میری بھی تو ماں ہے۔ مگر اس کے سسرال والے اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے وہ اس کو طعنہ دیتے ہیں کہ تم اپنی ماں کو پال رہی ہو۔ مریم کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے، اگر میں ان کے تمام خرچے اٹھاؤں بھی تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہم سب بہن بھائیوں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے سسرال والے سوچتے ہیں کہ والدین صرف بیٹوں کی ذمہ داری ہے۔ بیٹیاں تو پرائے گھر کی ہوتی ہیں۔
مگر مریم کے مطابق بچپن میں اس کے والدین نے صرف اس کے بھائیوں کی پرورش تو نہیں کی تھی، صرف ان کا خیال تو نہیں کیا تھا۔ مریم نے مجھے بتایا کہ اس کی ماں ان ماؤں میں سے نہیں تھی جو بیٹوں کا زیادہ خیال رکھتی اور بیٹیوں کو زیادہ توجہ نہ دیتی۔ بلکہ مریم کو تو اس بات پر فخر تھا کہ اس کی ماں نے ان سب کا بہت اچھے سے خیال رکھا اور اپنے سب بچوں میں برابری رکھی۔ اسی لیے وہ سوچتی ہے کہ اب کیوں نہ میں اور میرا بھائی مل کر ان کا خیال رکھیں۔
مریم نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ان کی والدہ بھی اس کے تحائف اور پیسے وغیرہ لینے سے انکار کرتی ہے۔ کیونکہ وہ ان کو اپنا حق نہیں سمجھتی۔ وہ لوگوں کی باتوں سے بخوبی واقف ہیں ۔ مگر مریم نے ان کو سمجھایا کہ ہمیں "لوگ کیا کہیں گے” کے حصار سے نکلنا ہوگا۔ اور اپنی سوچ کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہوگی۔ تب ہی ہم پُرسکون زندگی گزار پائیں گے ۔
ہمارے معاشرے میں کم ہی لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ باقی سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ والدین صرف بیٹوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ اور ان کا خیال رکھنا ان کی بیویوں کا فرض ہوتا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے والدین اپنی اولاد کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اگر بیٹے اپنے والدین کے لیے کچھ کرنا چاہے، خاص طور پر مالی لحاظ سے تو ہم ایسے والدین کا جینا اجیرن کر دیتے ہیں یہ طعنے دے کر کے کہ بیٹی کے مال پر پل رہے ہیں۔
اگر والدین نے بیٹے اور بیٹی کو ایک جیسی تعلیم دلوائی، ان کو ایک جیسے سہولیات مہیا کی، ایک جیسا خیال رکھا اور دونوں پر ایک جیسے پیسے خرچ کئے تو دونوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھی والدین کا ایک ہی جیسا خیال رکھیں کیونکہ جیسے بچے سب والدین کے ہوتے ہیں ویسے ہی والدین بھی سب بچوں کے ہوتے ہیں۔
کیا آپ کو بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ والدین صرف بیٹوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں؟