ڈرامے کی آنکھ سے دکھایا جانے والا مرد کیا اصل زندگی میں واقعی جابر،دھوکے باز یا تشدد پسند ہے؟
ناہید جہانگیر
مرد کو آج کل میڈیا پر جابر، ظالم اور تشدد پسند دکھایا جاتا ہے۔ وقتی طور پر تو ڈرامہ دیکھنے والے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن وہی ڈرامہ نا صرف ایک مرد کی شخصیت پر بلکہ اس معاشرے پر کتنا منفی اثر انداز ہوتا ہے، کیا کسی نے اس بارے میں سوچا ہے؟
پہلے دنیا بھر میں پختون مہمان نوازی کے لئے مشہور تھے لیکن اب لوگ تشدد پسند، ظالم یا ماں بہن کو عزت کے نام پر قتل کرنے والے مشہور ہوگئے ہیں۔ حسین اللہ، جو پچھلے 10 سالوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں، وہ مزید بتاتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا پر مرد کو منفی کردار کے زریعے کافی بد نام کیا جا رہا ہے، اس کا اندازہ شاید وہاں کے ڈرامہ تخلیق کاروں کو نہیں ہے لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اور ان جیسے پاکستانیوں اور خاص کر پشتونوں کو لوگ وہی سمجھتے ہیں جو وہ ڈراموں میں دیکھتے ہیں۔
کیا پاکستانی یا پشتون مرد واقعی مکار، جھوٹا یا دھوکہ دینے والا ہے؟ اس سوال کے جواب پر پشاور یونیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر بخت زمان جو آج کل میڈیا پر مرد کے منفی کردار کے حوالے سے ریسرچ بھی کر رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے تو کراچی، لاہور سنٹر سے جو بھی ڈرامے بنتے تھے ان میں پشتون مرد نوکر، ڈرائیور یا چوکیدار کے طور پر کرداروں میں دکھائی دیتے تھے۔
پھر ان کے اردو لہجے کو بھی مذاق کا نشانہ بنایا جاتا۔ ان کو ڈرامے میں اس طرح کا گیٹ اپ دیا جاتا، جیسے کہ بڑی بڑی مونچھیں، منہ پر بڑا سا تل پھر بعد میں عجیب و غریب نام دیئے جاتے تھے۔ جیسے بارود خان،جمعہ خان ،شیر خان۔ وقت گزرتا گیا پھر وہی روایات پشتو رائٹرز نے بھی اپنا لی۔ جس میں شاید اختیار کسی اور کے ہاتھ میں تھا، انہوں نے بھی ایسےڈرامے لکھے جس میں پشتون مرد کو جابر، ظالم یا جاہل باپ دادا کی شکل میں دکھایا گیا۔
ان کے مطابق مرد کو تشدد پسند دکھانے میں رائٹرز کے ساتھ ساتھ چینل بھی ذمہ دار ہیں۔ کچھ پشتو کے نام پر چینل آئے ان کو چاہیئے تھا کہ وہ اس قسم کے پروپیگینڈا کی روک تھام کرتے۔ لیکن نہیں، وہ بھی اسی سلسلے میں کوئی خاص کردار ادا نہ کر سکے۔
بخت زمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی مرد اور خاص کر پشتون مرد کا اس وقت کافی منفی پروپیگنڈا ہوا جب مختلف این جی اوز نے مختلف سلوگن کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ جس میں دنیا کو یہ دکھایا گیا کہ پاکستان یا پشتون مرد، والد، بھائی، شوہر کی شکل میں بہن بیوی کے حقوق ہڑپ کر رہا ہے اور ان پر تشدد کر رہا ہے۔ جو دنیا بھر میں مرد کی شخصیت اور کردار پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے ۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے چند نا خوشگوار واقعات کے ساتھ پورے معاشرے کو تولنا انصاف نہیں ہے ۔
پروفیسر بخت زمان کے مطابق لوگ وہی سمجھتے ہیں جو وہ میڈیا پر دیکھتے ہیں کیونکہ میڈیا کے ذریعے ہی کسی معاشرے کی عکاسی کی جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے میڈیا ایک مرد کی درست عکاسی کرنے میں ناکام رہا ہے۔
دوسری جانب نیشنل ایوارڈ یافتہ معروف اردو، پشتو ڈراموں کی اداکارہ شازمہ حلیم بتاتی ہیں کہ میڈیا وہ عوام کو دکھاتا ہے، جو معاشرے میں کسی نا کسی صورت میں موجود ہوتا ہے، لوگ بھی وہی پسند کرتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کے ارد گرد موجود ہوتا ہے۔ ان سب چیزوں کو کردار میں دیکھنے والوں کو اپنا آپ یا اپنے حالات نظر آتے ہیں۔
شازمہ حلیم کے مطابق معاشرے میں مرد ایک ڈومیننٹ شخصیت ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ ٹھیک بھی ہوتا ہے لیکن ایک خاتون مظلوم ہے وہ چاہے جتنی بھی اپنے فیصلے میں درست ہو، تو وہی ہوتا ہے جو انکا مرد چاہتا ہے۔ تو ڈراموں میں بھی وہی چیز دکھائی دے گی۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ پاکستانی یا پشتون مرد اتنے ظالم، جابر، تشدد پسند نہیں ہے جتنا میڈیا پر دکھایا جاتا ہے لیکن کم بھی نہیں ہے۔ مار کٹائی ،اپنی بیوی بچوں سے چھپ کر افیئر چلانا یا دوسری شادی کرنے سے گریز نہیں کرتے، اور میڈیا کا تو کام ہے معاشرے کی ایسی برائیوں کی نشان دہی کرنا یا عوام کو آگاہی دینا ۔ جب کسی موضوع کو ڈرامائی شکل دی جاتی ہے تو ڈرامائی کردار شاید تجزیہ کار کو کچھ زیادہ ہی حقیقی زندگی سے مختلف لگتا ہے۔
نور البصر نوید جنہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے لاتعداد ڈرامے لکھے ہیں، شازمہ حلیم کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں کو خواتین کی نسبت گھر سے باہر بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرتا ہے، جبکہ ایک خاتون گھر کے اندر بچوں اور خاوند کی دیکھ بھال کرتی ہیں تو مرد روزگار کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ گھر سے نکل کر دکاندار سے لے کر بازار تک اور ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ پھر اقتصادی بد حالی سے متاثر مرد جب گھر آتا ہے، جو اس کے آرام کا مسکن ہوتا ہے لیکن ان کے ذہن میں کمزور اقتصادی بدحالی کی وجہ سے گھریلو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
لیکن ہمارے معاشرے میں تمام ہمدردیاں عورت کے حصے میں آتی ہے۔ ڈراموں سے لے کر عورت کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں تک تمام ہمدردی خواتین کے لئے ہے۔ ان کو ہی مظلوم دکھایا جاتا ہے۔ اسکی بھی بنیادی وجہ خواتین کے ساتھ محرومیاں جڑی ہوتی ہیں۔ ان کی معاشرے کے ساتھ پابندیاں جڑی ہوتی ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ یہاں کی روایات ایسی ہے جس میں تمام تر ہمدردیاں خواتین کے ساتھ ہوتی ہیں اور ایک مرد جو سارا دن محنت کرتا ہے، رزق کی تلاش میں سختیاں جھیلتا ہے لیکن پھر بھی وہ ایک ظالم حکمران کی طرح گھر کا سربراہ پیش کیا جاتا ہے۔ جو ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ پھر ڈرامائی کردار میں بھی ایک مرد کو ظالم یا جابر پیش کیا جاتا ہے جبکہ خاتون کو مظلوم دکھایا جاتا ہے۔
نور البصر نوید کے مطابق ہر معاشرے میں کہی نا کہی یا کسی نا کسی شکل میں برائی موجود ہوتی ہیں کہ لیکن اچھائی کئی گنا زیادہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد کی خاندان والوں کے لئے اقتصادی جدوجہد، بہن بیٹی کے لئے پیار، والدین کے ساتھ خلوص کو بھی دکھایا جائے اور منفی کردار پر مثبت کردار کو فوقیت دی جائے اسطرح کسی بھی معاشرے کے خلاف دوسرے علاقوں یا صوبے کے لوگوں کی منفی رائے نہیں بنے گی۔