حرام اتنا رچ بس چکا ہے کہ حلال اجنبی سا لگتا ہے، مگر ایسا کیوں؟
حمیرا علیم
ہمارے معاشرے میں ہر قسم کا حرام اتنا رچ بس چکا ہے کہ حلال اجنبی سا لگتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی مکمل پردہ کرنا چاہے اور کزنز کے سامنے نہ جائے تو اس کے والدین ہی اسے ڈانٹتے ہیں۔ کوئی لڑکا داڑھی رکھے پینٹ ٹخنوں سے اوپر رکھے تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ لیکن الحمدللہ نئی نسل دین کو پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کی طرف راغب ہے۔ مگر افسوس کچھ ایسے لوگ جو معاشرے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، عوام کی سوچ کا دھارا بدل سکتے ہیں وہ حرام کو نارملائز بلکہ گلیمرائز کر کے پیش کر رہے ہیں اور حلال جو پہلے ہی اجنبی ہے اسے حرام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
آج کل شادی کے بعد بیوی کو الگ رہائش مہیا کرنے کے موضوع پر لکھا جا رہا ہے جو عورت کا شرعی حق ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ سب سے پہلے عورت ہی اس حق پر اعتراض کرتی نظر آتی ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ہاں رہن سہن کے طریقے ہندوانہ ہیں۔ جہاں جوائنٹ فیملی کا تصور تو ہے مگر الگ رہائش کا نہیں۔ اگر ہم کوئی بھی فلم، ڈرامہ، ناول خصوصا خواتین مصنفین کی کہانیاں دیکھیں تو ان میں جوائنٹ فیملی، ڈھیروں کزنز کا ایک گھر میں رہنا، لو افیئرز، بے پردگی، شادی بیاہ کی تقریبات میں مخلوط محافل، ناچ گانا، یونیورسٹی کالج جانے کی بجائے گرل / بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر جانا، گھر سے بھاگ کر شادی ، شراب، نشہ ، جھوٹ، ساس نندوں بہنوں کی سازشیں جھگڑے, گھریلو تشدد اوردیگر حرام ایسے گلیمرائز کر کے دکھائے جاتے ہیں کہ یہ سب نارمل لگتا ہے اور ہمارے بچے اسے آئیڈلائز کر کے ویسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
لیکن جہاں کوئی بیٹی پسند کی شادی کرنے کی خواہش کرے، جائیداد میں سے حصہ مانگے، بیٹا بیوی کو الگ رہائش دینا چاہے، خاندان کے بیوی ہر ظلم کے خلاف بولے، دیور بھابھی کے میل جول کو نا پسند قرار دے، رشوت، جھوٹ، حرام کے خلاف بولے تو وہیں اس شخص کو ایسے دکھایا جاتا ہے کہ جیسے وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو اور سائیکوپیتھ ہو۔
ایک مشہور ڈائجسٹ کی مصنفہ کی کہانی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کہانی کا موضوع یہی تھا کہ لڑکی شادی کے بعد ساس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی چنانچہ اپنا پورشن الگ کر لیتی ہے، جس کی پاداش میں اس کی پریگنینسی کے دوران گھر میں نوکرانی چوریاں کر کے اس کا قیمتی سامان لے جاتی ہے اور وہ پھسل کر گرنے پر اپنا بچہ گنوا دیتی ہے۔ پھر ساس اس کی دیکھ بھال کرتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے ‘سوشل میڈیا ٹرینڈ’ سے متاثر ہو کر الگ ہونے کا کتنا غلط فیصلہ کیا تھا حالانکہ یہ ایک نیا ٹرینڈ نہیں بلکہ اسلامی حق ہے۔
یہی بہو اگر کسی دوسرے ملک میں شوہر کے ساتھ جاتی تو ہر کام خود ہی کرتی حتی کہ سی سیکشن کے تیسرے دن گھر کے سارے کام بھی خود ہی کرتی کیونکہ وہاں اس کے خاندان کی کوئی خاتون ہوتیں نہ ہی میڈ۔ اس بارے میں میں نے ایک آرٹیکل لکھا تو سب سے زیادہ خواتین کو ہی اعتراض تھا کہ اگر بہو الگ ہو جائے گی تو ساس، نند، دیور کا کام کون کرے گا؟ بوڑھے والدین کی خدمت کرنے کے لیے کیا بیٹا کام چھوڑ ے گا؟مرد حضرات کا اعتراض تھا کہ جن والدین نے بیٹے کو پالا پوسا، پڑھایا، شادی کروائی اپنے گھر میں رکھا انہیں چھوڑ کر بیوی کے ساتھ چلا جائے؟
ان سب کا جواب بڑا سادہ سا ہے بہو کے آنے سے پہلے گھر کے کام کیسے چلتے تھے کون کرتا تھا؟ گھر کا ہر فرد کیوں نہیں ہر کام کرتا تاکہ مل جل کر سب کام کر لیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن میں بتا دیا کہ بالغ ہوتے ساتھ مرد ہو یا عورت اپنے خرچ کا خود ذمہ دار ہے۔خصوصا مرد اپنے خاندان بیوی بچوں کی کفالت کرے۔ کہیں یہ نہیں لکھا کہ پڑ پوتے بھی دادا کے خرچے پر ان کے گھر میں زندگی بسر کریں۔ اور الگ رہائش کامقصد پردہ اور پرائیویسی کا خیال رکھنا ہے۔ اگر کسی کو یہ اعتراض ہے کہ ویسے کون سا پردہ ہوتا ہے جو صرف دیور جیٹھ سے کرنے کا بہانہ کر کے الگ رہائش لی جائے۔ تو قرآن واضح حکم دیتا ہے کہ اپنے گھر کی خواتین حتی کہ مسلم خواتین کو بھی مرد پردہ کروائے۔ یہ فرض بھی مرد کو ہی ادا ہوتا کرنا ہے جس سے وہ غافل ہے اور نتیجتا بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر میکے کے ساتھ اچھا رہے مگر یہ مرد پر منحصر ہے کہ وہ اپنی اور بیوی کی فیملی کے درمیان بیلنس کیسے رکھتا ہے۔ بیوی اس چیز کی مجاز نہیں کہ شوہر کو اس کے خاندان سے ملنے، ان پر خرچ کرنے سے روک سکے۔
ویسے تو شوبر ہے ہی شیطانی چرخہ اور شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار، جو ہمارے اذہان پر غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہو کر ہمیں اسلام سے دور کر رہا ہے۔ لیکن اس کے ذریعے اخلاقی تربیت بھی ممکن ہے جیسے کہ کئی بنگالی، ایرانی، اور انگلش چینلز ایسی موویز اور کارٹونز بنا رہے ہیں جو بے حد عمدہ اندازمیں لوگوں اور خصوصا بچوں کو اسلامی اصولوں سے روشناس کروا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مصنفین بھی اپنا فرض پورا کریں اور ایسی کہانیاں لکھیں جن میں حلال کو پرکشش طریقے سے پیش کریں اور چھاپنے والے بھی ان کہانیوں کو شائع کرنے میں نہ جھجھکیں۔