آخر غربت انسان سے اچھے برے کی تمیز کیوں بھلوا دیتی ہے؟
سعدیہ بی بی
ایک وقت تھا کہ مہنگائی اور غربت ایک "واقعہ” تھی ۔ بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے مہنگائی اور غربت "حادثہ” بن گئی اور اب اکیسویں صدی میں مہنگائی اور غربت "سانحہ” بن کر سامنے آرہی ہے ۔ انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، قومی زندگی ہو یا بین الاقوامی زندگی، ہر طرف جرائم کی فراوانی ہے۔ اس فراوانی کو دیکھ کر کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی جرائم کے سمندر میں ایک جزیرے کے سوا کچھ نہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو حد سے بڑھی ہوئی غربت اتنی ہولناک چیز ہے کہ انسان کو جرائم تک پہنچا سکتی ہے۔ غربت ہر وہ کام کرواتی ہے جو قانون کے خلاف ہو۔ وہ انسان سے چوری بھی کروا سکتی ہے، ڈاکہ بھی ڈلوا سکتی ہے، خودکشی کرنے پہ بھی مجبور کر دیتی ہے، طوائف بنا دیتی ہے، یہاں تک کہ کسی کو قتل بھی کرا سکتی ہے ۔
جیسا کہ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ کزن کی شادی کی خریداری کے لئے بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے اپنے لیے کچھ سوٹ لینے تھے۔ جس کے لیے ہم ایک دکان پر رک گئے اور اپنے لیے سوٹ پسند کرنے لگے ۔ اتنے میں ایک خاتون بھی ہمارے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ اتفاقا میری نظر ساتھ کھڑی خاتون پر پڑی تو وہ ادھرادھر نظر دوڑاتی رہی جیسے کہ وہ دکان کا حال لے رہی ہیں۔
میں سمجھی وہ اپنے لیے کچھ پسند کر رہی ہوںگی تبھی ہر چیز کو غور سے دیکھ رہی ہے۔ اب وہ شاپ والے سے کبھی ایک سوٹ کھلواتیں کبھی دوسرا۔ لیکن انہیں کوئی پسند ہی نہ آتا اور وہ مزید کھلواتی جا رہی تھی۔ شاپ والا جیسے ہی تھوڑا ادھادھر ہوتا تو وہ خاتون ایک سے دو سوٹ اپنے بیگ میں ڈال لیتی۔ ایسا اس خاتون نے تین سے چار مرتبہ کیا اور آخر میں یہ بولتی ہوئی نکل رہیں تھیں کہ مجھے کوئی پسند ہی نہیں آیا۔
اب ظاہری بات ہے شاپ والے کو تو غصہ آنا ہی تھا کیونکہ اس خاتون نے درجنوں سوٹ تو کھلوائے لیکن اس کو کوئی پسند ہی نہ آتا۔ شاپ والے نے بھی غصے میں بول دیا کہ ” اگرکچھ لینا ہی نہیں تھا تو آپ بازار آئی کیوں ہیں ، اپنا وقت بھی ضائع کیا اور ہمارا بھی” اور وہ اپنے سوٹ واپس سنبھالنے لگا۔
اس دوران ہم نے سوٹ پسند کر لیے تھے اور وہاں سے نکلنے ہی والے تھے کہ شاپ والے کو اپنے کچھ سوٹ کم لگے ۔ ہمارے ہاتھ میں تو کوئی بیگ نہیں تھا لیکن شاپ والے کو اس خاتون پر شک ہوا اور وہ اس کے پیچھے نکل پڑا۔ ابھی وہ اتنی دور نہیں گئی تھی۔ شاپ والا اس خاتون کو لے آیا اور اس خاتون کا رنگ دیکھنے والا تھا۔ جب اس کا بیگ چیک کیا گیا تو تقریبا چھ سے سات سوٹ برآمد ہوئے اور وہ اسی شاپ کے سوٹ تھے جس میں وہ گھنٹوں کھڑی نخرے کرتی رہی۔
لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ ان کے منہ پر ایک یہ جملہ تھا کہ ” یہ میں نے کسی دوسری شاپ سے لیے ہیں لازمی تو نہیں کہ ایسے سوٹ ایک ہی شاپ میں ہوں”۔ لیکن جب شاپ والے نے بولا کہ میں پولیس کو بلوا لوں گا مجھے میرے سوٹ واپس کرو تم نے چوری کی ہے۔ وہ خاتون تب بھی نہ مانی اور چیخ چیخ کر ہجوم کو اکٹھا کردیا کہ یہ مجھ پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں۔
لیکن جب سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھا گیا تو اس میں واضح نظر آیا کہ خاتون نے واقعی شاپ سے چوری کی ہے۔ لیکن وہ تب بھی ماننے کو تیار نہیں تھی۔ بلا آخر انہوں نے سچ بولا کہ یہ چوری میں نے اپنے بچوں کی خاطر کی ہے، میرے بچوں کے پہننے کے لیے کوئی کپڑے نہیں ہیں اور رونے لگ گئیں۔ سب نے یہی بولا کہ اگر پہننے کو کپڑے نہیں ہیں تو کیا تم چوری کرو گی۔ وہ چپ چاپ کھڑی رہی اور تھوڑی دیر بعد انہوں نے اس خاتون کو چھوڑ دیا ۔
مہنگائی میں تواتر سے اضافہ جاری ہے اور اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں اور غربت، بے روزگاری، بیماری، جہالت، ہر طرف اپنے پاؤں پھیلائے ہوئے جرائم کی جانب رواں دواں ہے ۔ مہنگائی اور جرائم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے ۔ جتنی زیادہ مہنگائی ہوگی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ جس میں ڈاکے چوری اور اغوا جیسے جرائم سرفہرست ہیں۔ مہنگائی جہاں ملک کی معیشت کو تباہ کرتی ہے وہیں معاشرے میں جرائم کا سبب بھی بنتی ہے ۔ جیسا کہ اس خاتون نے اپنے بچوں کی خاطر چوری کی جو کہ انہیں نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ ایک عورت ہو کر بھرے بازار میں اپنی عزت بھی نیلام کی اور چوری جیسا گناہ بھی کیا۔
اگر کوئی اتنا غریب اور مجبور ہے کہ بچوں کے لیے دو وقت کا کھانا نہ ہو پہننے کو کپڑے نہ ہوں، تو تھوڑی محنت مزدوری کر لینی چاہیئے ۔ عزت کے ساتھ روٹی کمانی چاہیئے ۔ ایسے بھیک مانگ کر چوری کر کے نہ خود حرام کھائیں اور نہ اپنے بچوں کو کھلائیں ۔