بلاگزعوام کی آواز

کیا بیویاں ہی گھر کے کام کاج کی ذمہ دار ہیں؟

حمیراعلیم

پاکستان میں عموما جب لوگ اپنے بیٹے کا رشتہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ اعلی تعلیم یافتہ، خوبصورت، ویل آف ہونے کے ساتھ ساتھ لڑکی سگھڑ بھی ہو کیونکہ گھر اسے ہی سنبھالنا ہے۔ ایک فیملی فرینڈ نے، جو پروفیسر ہیں ان کے شوہر اور چار بیٹے ڈاکٹر ہیں، اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے کسی لڑکی کا کہا میں نے ان سے پوچھا :” آپ کو کیسی لڑکی چاہیئے؟” کہنے لگیں:” ڈاکٹر ہو، چھوٹی فیملی ہو سب بہن بھائی والدین ڈاکٹرز ہی ہوں، لڑکی پیاری بھی ہو اور گھر کے کام کاج کرنے والی بھی ہو اور فیملی ویل آف ہو تاکہ لڑکی کی سپورٹ نہ چاہیں۔” میں نے ان سے کہا کہ آج کل تو عام  گھرانوں کی ڈگری ہولڈر بچیاں بھی گھر کے کام نہیں کرتیں تو ایک امیر گھر کی ڈاکٹر لڑکی کیسے کام کرے گی۔ آپ میڈ رکھ لیجئے گا نا، تو کہنے لگیں ہم نے بھی جاب کے ساتھ ساتھ سب کام کئے ہیں۔ میرا جواب تھا آپ کا دور اور تھا، آج کل کوئی ایسی لڑکی نہیں ملے گی۔

سوچیے ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون بھی یہ چاہتی ہیں کہ ان کی بہو جاب کے ساتھ ساتھ گھر کا سارا کام سسرال کی خدمت بھی کرے تو عام گھریلو خاتون کی تو پہلی شرط ہی یہی ہوتی ہے کہ بہو گھر میں قدم رکھتے ساتھ 24/7 سارے سسرال کی بے دام باندی بن جائے۔ نہ تو خدمت کرتی تھکے نہ اجرت مانگے نہ تعریف چاہے۔

اچھی بہو بننے کے چکر میں خواتین گھن چکر بن جاتی ہیں نہ تو شوہر کو وقت دے پاتی ہیں، نہ ہی بچوں کو۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ غلام بن کر بھی کبھی انہیں سراہا نہیں جاتا ہمیشہ جلی کٹی ہی سننے کو ملتی ہیں۔

اسلام میں بہو، بھابھی پر سارے سسرال کی خدمت کرنا فرض نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا… مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے۔” البخاری5200

یعنی عورت پر صرف شوہر اور بچوں کے کاموں کی ذمہ داری ہے۔

روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کیا کہ آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کے کام کی ذمہ دار ہیں جب کہ ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ باہر کے کام کے ذمہ دار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ گھر کے باہر جو کچھ ہے اس کا معاوضہ ان سے لیا جائے۔ مصنف ابن ابی شیبہ، 29677

یعنی غلام، لونڈی یا کوئی مددگار رکھا جا سکتا ہے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ کام اتنا مشکل تھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ہاتھوں پر نشانات کی شکایت کی اور ایک لونڈی مانگی۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسبیحات بتائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اہل صفہ کی ایک جماعت کو اپنے گھر بلایا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :”ہمیں کھانا کھلاؤ” وہ ان کے پاس کچھ لے کر آئیں۔  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مزید لاؤ۔”تو وہ تھوڑا سا اور لے آئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمیں کچھ پلاو ۔” اور وہ دودھ کا ایک برتن لے آئیں۔ عبدالرزاق، 20712، مسند ابن ابی شیبہ، 607، سنن ابوداؤد،

یہ روایات ظاہر کرتی ہیں کہ صحابہ کی فکر یہ تھی کہ اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح بہتر طریقے سے ادا کریں اور اپنی شریک حیات کے بوجھ کو کم کریں۔ ان کی بنیادی فکر یہ نہیں تھی کہ ان کی شادی سے بہترین فائدہ کیسے حاصل کیا جائے بلکہ یہ تھی کہ کس طرح دینا اور حصہ ڈالنا ہے۔

مرد کو بیوی کا محافظ  بنایا گیا ہے محکوم نہیں، بیوی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر وہ بات مانے جو وہ اسے حکم دیتا ہے۔ شوہر کی اطاعت  صرف ان چیزوں کے متعلق ہے جو شادی اور اس کے تعلقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی اطاعت اس وقت واجب نہیں جب اس کا حکم بیوی کو نقصان پہنچائے۔ عورتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ گھر کے کام کاج کرنے اور اپنے شوہروں کی فرمانبرداری کرنے میں بڑا اجر ہے۔

شریعت میں بیوی کی رہائش کی قسم اس کے پس منظر اور شوہر کی مالی حالت پر منحصر ہے۔ اگر بیوی ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور شوہر مالی طور پر خوشحال ہے تو وہ مکمل طور پر علیحدہ رہائش کی حقدار ہے ۔ اگر وہ ایک اوسط پس منظر سے ہے اور شوہر مالی طور پر قابل نہیں تو صرف ایک علیحدہ کمرہ فراہم کرنا ہے۔

جہاں تک سسرال کی خدمت کا تعلق ہے تو یہ مرد کی ذمہ داری ہے بیوی کی نہیں لیکن اگر بیوی اس کے والدین کی خدمت میں اس کی مدد کرے تو یہ بیوی کا احسان ہو گا۔ لیکن دیور جیٹھ، نندوئی، اس کے خاندان کے دیگر مردوں کی  خدمت بیوی پہ لازم نہیں کیونکہ وہ اس کے لیے نامحرم ہیں۔

بیوی پر شوہر کے گھر کے کام کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ اس کا کفیل ہے اسے گھر ، لباس، کھانا پینا اور دیگر ضروریات مہیا کرتا ہے۔ اس لیے عورت کو اس کا اس کے بچوں اور گھر کا خیال رکھنا چاہیئے ہے۔ اگر مرد یا عورت صاحب استطاعت ہیں تو وہ کوئی نوکر رکھ سکتے ہیں۔

جیسے کہ تمام ازدواج مطہرات کے پاس غلام اور لونڈیاں تھیں۔گھر سے باہر کے کام عورت کی ذمہ داری نہیں جیسے کی کما کر لانا ، اخراجات بانٹنا۔ ہاں بحالت مجبوری وہ باہر کے کام، بل ادا کرنا، بچوں کو اسکول لانا لے جانا، گروسری وغیرہ کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے شوہر سے الگ سے معاوضہ بھی لے سکتی ہے۔

اگر شوہر بیوی کا ہاتھ بٹائے یا اپنے کام خود کرے تو کوئی حرج نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیک وقت نو ازدواج مطہرات تھیں۔ مگر آپ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے، جوتے گانٹھ لیتے تھے، دودھ دھو لیتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ بیگمات کو سبزی بنا دیتے تھے، آگ جلا دیتے تھے، پانی بھر دیتے تھے، آٹا گوندھ دیتے تھے۔ اور کبھی جو کھانا پکا ہوا نہ ہوتا تو بجائے غصہ کرنے کے روزہ رکھ لیتے تھے۔

یہ نہیں فرماتے تھے کہ کیسی خواتین ہو نو بیویاں ہو کر ایک شوہر کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال نہیں رکھ سکتیں۔ مگر افسوس آج ہم صرف چار شادیوں ی سنت کو ہی یاد رکھتے ہیں اور مندرجہ بالا ساری سنتیں بھلا بیٹھے ہیں۔اگر ہم اپنی زندگی سنت کے مطابق نہیں گزار سکے تو اپنے بچوں کی تربیت ایسے ضرور کریں کہ وہ ان تمام احکام الہی اور سنتوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button