بلاگزعوام کی آواز

بے وقت کی راگنی، کام اور ذاتی زندگی کو کیسے بیلنس رکھا جائے؟

حمیراعلیم

ہر ادارے، ملک، علاقے اور مذہب کے کچھ قوانین ہوتے ہیں کچھ رسم و رواج اور کچھ اخلاقی تقاضے۔ اور ایک اچھا انسان ان سب کی پابندی کرتا ہے ان پر عمل درآمد کرتا ہے۔ جیسے کہ اسلام نے استیذان،  اجازت لے کر گھر کمرے میں داخل ہونے، کے آداب سکھائے ہیں۔ ایسے ہی سوشل میڈیا کے استعمال کے کچھ آداب ہیں۔

جیسے کہ کسی بھی ایپ پر کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہ کی جائے۔ گفتگو کرتے ہوئے مہذب انداز اپنایا جائے۔بلاوجہ کسی سے فری ہونے کے لیے اسے پرائیویٹ میسیجز نہ کیے جائیں اور یہ کہ کوئی آپ کا قریبی دوست یا رشتے دار ہو اور وقت بے وقت میسیجز نہ کیے جائیں۔

کچھ دن پہلے میں نے فیس بک میں کئی گروپس میں یہ سوال پوسٹ کیا تھا کہ لوگ رات کو کیوں جاگتے ہیں؟ جس پر مختلف جوابات ملے کچھ غیر ملکی کمپنیز میں آن لائن جاب کرتے ہیں اس لیے ان کی جاب رات کو ہی ہوتی ہے تو وہ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ بے خوابی کا شکار ہوتے ہیں، جو لوگ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں خصوصا نیوز پیپرز کے ایڈیٹرز وہ بھی رات کو ہی کام کرتے ہیں اور بعض لوگ پیکجیز سے مستفید ہونے کے لیے رات بھر جاگتے ہیں اور اپنے  بیرون ملک مقیم دوست احباب سے گفتگو کرتے ہیں۔

چلیے اس حد تک تو ٹھیک ہے مگر جب ایسے لوگوں کو وقت بے وقت میسیجز کیے جائیں جو پروفیشنل ہوں۔ 9 سے پانچ یا 7 سے 3 بجے تک کی جاب کرتے ہوں اور وہ نارمل انسانوں کی طرح رات کو آرام کے لیے استعمال کرنے کے عادی ہوں تو یہ عمل بے حد تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لیے کسی بھی ورکنگ پرسن کو اس وقت میسیج کرنا چاہیے جب وہ فارغ ہو۔ اور یہ کہ کوئی ایسا کام ہو جو بےحد اہم نوعیت کا ہ، عموما ایسے لوگ اپنے موبائل کو ” ڈونٹ ڈسٹرب ” موڈ پر رکھ کر یا سائلنٹ کر کے سوتے ہیں لیکن اکثر ایسا نہیں کرتے اور کسی کا رات دو بجے کو کیا گیا ایک فارورڈڈ یا ہیلو ہائے کا میسیج ان کی نیند حرام کر دیتا ہے۔

” لیٹ نائٹ ڈرائیو” پروگرام کی کو ہوسٹ مشیل آکلینڈ  لکھتی ہیں کہ بڑی عمر کے لوگ، خصوصا وہ جن کے بچے ہیں، کسی بھی میسیج کو مس نہیں کرتے مبادا کوئی ایمرجنسی ہو۔ اس لیے انہیں رات گئے میسیج کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیئے۔ اگر آپ میسیج کرنا ہی چاہتے ہیں تو اسے اس وقت کے لیے اسکیجول کر لیں جب وہ اٹھ کر ناشتہ وغیرہ کر چکے ہوں۔

اس بارے میں ماہرین آداب کی رائے کیا ہے؟ سارہ جین ہو، اپنی کتاب "مائنڈ یور مینیرز: ہاو ٹو بی یور بیسٹ سیلف ان اینی سچویشن” میں لکھتی ہیں کہ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے میسیجز جاگنے کے اوقات یعنی صبح 8 سے رات 10 تک کریں۔ لیکن میں اس کے برعکس بھی کرتی ہوں خصوصا اپنی دوستوں اور خاندان کے لوگوں کے ساتھ۔”

ٹامس پی فارلے، جو مسٹر مینیرز کہلاتے ہیں،  کہتے ہیں کہ جب آپ جانتے ہیں کہ کوئی سو رہا ہے تو اسے ای میل یا ٹیکسٹ نہ بھیجیں۔ ہمارے دماغوں کو بیدار کرنے اور دوبارہ سونے کی ہماری صلاحیت کو روکنے کے لیے شام کے اوقات میں ٹیکسٹ میسج دیکھنے جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔

نک لیئٹن کہتے ہیں:” کافی لوگ ڈونٹ ڈسٹرب کا موڈ استعمال کرتے ہیں لیکن بہت سے نہیں بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ کوئی اہم کال یا میسیج مس نہیں کرنا چاہتے۔ اگر کسی کے میسیجز آپ کی نیند خراب کر رہے ہیں تو انہیں بتائیں کہ اگر کوئی بہت اہم میسیج نہ ہو تو صبح کا انتظار کریں۔”

ہو کہتی ہیں کہ :” ایسے کانٹیکسٹس کے لیے نوٹیفیکیشن سائلنٹ کر دیجئے۔ کیونکہ مجھے یہ عادت نہیں کہ میں دوسروں کو کنٹرول کروں۔ ہم وہ کر سکتے ہیں جو ہمارے  کنٹرول میں ہے یا اپنا ردعمل تبدیل کر سکتے ہیں۔اس لیے اگر آپ کالیٹ نائٹ میسیج مجھے پریشان کر رہا ہے تو میں آپ کو رات گئے میسیج کا جواب نہیں دوں گی۔”

ہو کا کہنا درست ہے لیکن زیادہ مناسب طریقہ یہی ہے کہ  لوگوں کو میسیج کرتے ہوئے وقت کا خیال رکھا جائے۔ کوئی دوست، رشتے دار یا کولیگ ہو تب بھی اس کے آرام کا خیال رکھا جائے اور صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی میسیج کیا جائے۔ کیونکہ آفس ٹائمنگ کے بعد انسان اپنی ذاتی زندگی میں مصروف ہوتا ہے۔

خصوصا خواتین کولیگز کو میسیج کرتے وقت مرد حضرات کو خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ پاکستانی معاشرے میں اس بات کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور بعض کیسیز میں تو صرف ایسے میسیجز کی وجہ سے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، قتل تک ہو جاتے ہیں۔ کوشش کیجئے کہ آفس ٹائمنگ میں ہی سارے امور ڈسکس کر لیں تاکہ ایسی نوبت ہی نہ آئے کہ کولیگز کو کال یا میسیج کرنا پڑے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button